(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن سعيد، حدثنا عقبة بن خالد، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا دعي احدكم إلى وليمة، فليجب". قال ابو محمد: ينبغي ان يجيب وليس الاكل عليه بواجب.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَى وَلِيمَةٍ، فَلْيُجِبْ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: يَنْبَغِي أَنْ يُجِيبَ وَلَيْسَ الْأَكْلُ عَلَيْهِ بِوَاجِبٍ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو ولیمہ کی دعوت میں بلایا جائے تو اسے یہ دعوت قبول کرنی چاہیے“(یعنی اس میں ضرور جانا چاہیے)۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: اس کو دعوت قبول کرنی چاہیے لیکن کھانا اس کے لئے واجب نہیں۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2241) یعنی شرکت تو کرے لیکن بسببِ شرعی اگر کھانا نہ کھائے جیسے وہاں منکرات دیکھے، گانے باجے اور رقص و سرور کی محفل ہو، یا شراب وغیرہ کا دور چلتا ہو، یا پرہیزی کھانا کھاتا ہو تو کھانا واجب نہیں ہے۔ والله اعلم۔ مذکورہ بالا حدیث شادی کے موقع پر کی جانے والی دعوتِ ولیمہ کو منظور و قبول کرنے کو واجب قرار دیتی ہے اور جمہور علماء کی رائے یہی ہے۔ انہوں نے وہ شرط ضرور لگائی ہے کہ وہاں تک پہنچنے میں کوئی امر مانع نہ ہو، مثلا کھانا ہی مشتبہ ہو، یا صرف مالداروں کو مدعو کیا گیا، یا باطل کام کے لئے تعاون و استعانت کے لئے اسے دعوت دی گئی ہو، وہاں ایسا کام ہو جو ناپسندیدہ ہو اور شرعاً منکر کی تعریف میں آتا ہو، ان حالات میں نہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ جب تم میں سے کسی کو اس کا بھائی مدعو کرے تو اس کی دعوت کو قبول کرنا چاہے خواہ وہ شادی ہو یا اسی طرح کی کوئی اور دعوت، اس سے بھی معلوم ہوا کہ دعوت میں ضرور جانا چاہیے۔ مسلم شریف میں ہی ہے: اگرنفلی روزہ رکھے ہو تب بھی دعوت میں جانا چاہیے اور اسے اختیار ہے کہ کھانا کھائے یا نہ کھائے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں دعوت قبول کرنے کا حکم دیا ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5174، 5175، 5179] ۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2251]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5173]، [مسلم 1429]، [أبوداؤد 3736]، [ابن حبان 5294]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه