(حديث مرفوع) اخبرنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن انس: ان النبي صلى الله عليه وسلم راى على عبد الرحمن بن عوف صفرة، فقال:"ما هذه الصفرة؟"، قال: تزوجت امراة على وزن نواة من ذهب، قال: "بارك الله لك، اولم ولو بشاة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ صُفْرَةً، فَقَالَ:"مَا هَذِهِ الصُّفْرَةُ؟"، قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلَى وَزْنِ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ: "بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ پر زرد رنگ دیکھا (یعنی بدن یا کپڑوں پر زعفران کا رنگ) تو فرمایا: ”یہ زردی کیسی ہے؟“ عرض کیا: میں نے ایک عورت سے ایک گٹھلی سونے پر شادی کی ہے (یعنی کھجور کی گٹھلی کے برابر سونے کے عوض جو تقریباً تین درہم کی ہوتی ہے)، فرمایا: ”الله برکت دے، ولیمہ کرو گرچہ ایک بکری کا ہو۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2240) ولیمہ اس کھانے کو کہتے ہیں جو خاوند کی طرف سے شبِ زفاف کے بعد ہوتا ہے، اور یہ مسنون ہے۔ اصلی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایک بکری ذبح کرے، اگر اتنی استطاعت نہیں ہے تو ستو اور جو اور مٹھائی پر بھی ولیمہ درست ہے، غرضیکہ ولیمہ ہر کھانے سے ہو سکتا ہے۔ بعض علماء نے ولیمہ کرنا واجب کہا ہے، حدیث میں بھی بصیغۂ امر وارد ہے «(أَؤْلِمْ)» اور امر وجوب پر ہی دلالت کرتا ہے جب تک کہ وجوب سے استحباب و مندوب کی طرف لے جانے والا کوئی قرینہ نہ ہو۔ اس حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام سے لگاؤ، الفت و محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ نئی چیز دیکھی تو سوال کیا ایسا کیوں ہے، نیز یہ کہ رنگ لگانا یا زعفران ملنا مرد کے لئے منع ہے۔ یہاں زعفران لگا جو دیکھا تو یہ دلہن کے پاس رہنے یا دلہن کے کپڑوں سے لگا ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دلہن کے ابٹنا وغیرہ لگانا جائز ہے، دولہا کے لئے نہیں، مہر میں تین درہم کی مقدار کا سونا دینا بھی اس حدیث سے ثابت ہوا، اور دولہا کو مبارکباد دینا بھی، نیز ولیمہ کرنا جس کی کوئی حد و مقدار نہیں، دولہا کی جتنی حیثیت و استطاعت ہو بلا تکلف ولیمہ کرنا چاہئے اور ولیمے کے لئے ریا و نمود، شان و شوکت دکھانا درست نہیں، خیر و برکت صرف سادگی اور امورِ اسلام کی پیروی میں ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو النعمان هو: محمد بن الفضل والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2250]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2409، 5155]، [مسلم 1427]، [ترمذي 1094]، [نسائي 3372]، [ابن ماجه 1907]، [أبويعلی 3205]، [ابن حبان 4060]، [الحميدي 1252]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو النعمان هو: محمد بن الفضل والحديث متفق عليه