(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن نافع، حدثنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني سعيد بن المسيب، انه سمع ابا هريرة، يقول: "اتي النبي صلى الله عليه وسلم ليلة اسري به بإيلياء بقدحين من خمر ولبن، فنظر إليهما ثم اخذ اللبن، فقال جبريل: الحمد لله الذي هداك للفطرة، لو اخذت الخمر، غوت امتك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: "أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ بِإِيلْيَاءَ بِقَدَحَيْنِ مِنْ خَمْرٍ وَلَبَنٍ، فَنَظَرَ إِلَيْهِمَا ثُمَّ أَخَذَ اللَّبَنَ، فَقَالَ جِبْرِيلُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَاكَ لِلْفِطْرَةِ، لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ، غَوَتْ أُمَّتُكَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی اس رات (بیت المقدس کے شہر) ایلیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شراب اور دودھ کے دو پیالے پیش کئے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا، دودھ کا پیالہ لے لیا، اس پر جبرئیل علیہ السلام نے کہا: اس اللہ کے لئے تمام تعریفیں ہیں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی فطرت کی طرف فرمائی، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کا پیالہ لے لیا ہوتا تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2124) اس حدیث میں فطرت کا لفظ آیا ہے، علمائے کرام نے جس کی کئی معانی بیان کئے ہیں۔ فطرت سے مراد فطرتِ اسلام ہے۔ بعض نے کہا: اصل الخلقہ جس پر انسان پیدا ہوا وہی مراد ہے « ﴿فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا﴾[الروم: 30] »، بعض نے کہا: اس سے مراد دین پر استقامت ہے وغیرہ۔ مولانا راز رحمہ اللہ لکھتے ہیں: دودھ انسان کی فطری غذا ہے اور شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اس کی ممانعت کی یہی وجہ ہے کہ اسے پی کر عقل زائل ہو جاتی ہے اور پینے والا جرائم و برے کام کر بیٹھتا ہے، اسی لئے اسے قلیل یا کثیر ہر طرح حرام کر دیا گیا۔ اس حدیث سے واقعۂ اسراء و معراج کا ثبوت ملا جو ہجرت سے پہلے وقوع پذیر ہوا، اور جس میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں تمام انبیاء کی امامت فرمائی، آسمانوں کی سیر کی اور نماز فرض ہوئی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2133]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5576]، [مسلم 168]، [نسائي 5673]، [ابن حبان 51، 52]