(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن خالد، حدثنا محمد بن إسحاق، عن يزيد بن ابي حبيب، عن ابي عياش، عن جابر بن عبد الله، قال: ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم بكبشين في يوم العيد، فقال حين وجههما:"إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والارض حنيفا وما انا من المشركين. إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين، لا شريك له، وبذلك امرت وانا اول المسلمين. اللهم إن هذا منك ولك، عن محمد وامته"، ثم سمى الله وكبر وذبح.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ فِي يَوْمِ الْعِيدِ، فَقَالَ حِينَ وَجَّهَهُمَا:"إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ. إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ"، ثُمَّ سَمَّى اللَّهَ وَكَبَّرَ وَذَبَحَ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن دو مینڈھوں کی قربانی کی، اور جس وقت ان کا منہ قبلہ کی طرف کیا تو یہ آیت پڑھی: «إِنِّيْ وَجَّهْتُ ...... الْمُسْلِمِيْنَ»”میں نے اپنا منہ اس ذات کی طرف کر لیا جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا، اور میں سیدھا مسلمان ہوں، میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، بیشک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور موت سب اللہ ہی کے لئے ہے، جو سارے جہانوں کا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے اس کا حکم ہوا اور میں سب سے پہلے اس کے تابعداروں میں سے ہوں۔“ پھر یہ دعا پڑھی: «اَللّٰهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهٖ» یعنی: اے الله یہ قربانی تیری ہی طرف سے ہے (تو نے ہی مجھے عطا کی) اور صرف تیرے لئے ہے محمد اور اس کی امت کی طرف سے۔ پھر «بسم الله الله اكبر» کہا اور ذبح کر دیا۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1983 سے 1985) قربانی کرنا سنّت ہے اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے، خلوصِ وللّٰہیت سے کی جائے تو خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے، اس کے لئے صاحبِ نصاب ہونا ضروری نہیں، استطاعت ہو تو قربانی کرے نہیں ہے تو ادھار لے کر قربانی کرنا درست نہیں، قربانی بکرا، مینڈھا، گائے اور اونٹ کی ہو سکتی ہے، ایک بکرا یا ایک مینڈھا ایک فیملی کی طرف سے کافی ہے، گائے اور اونٹ میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔ مذکورہ بالا حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مینڈھے کی قربانی ثابت ہے، گرچہ ایک مینڈھا کافی تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قربانی اپنی اور امّت کی طرف سے کی اور ایک اہل و عیال کی طرف سے، قربانی کرتے وقت مینڈھے کو قبلہ رو لٹایا، اس پر پیر رکھا، اور مذکورہ بالا آیت و دعا پڑھی اور پھر دست ڈالا قربانی کا، یہی طریقہ ہے، اسی طرح قربانی کرنا سنّت ہے، اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے، (آمین)۔ قربانی کے دیگر مسائل آگے آرہے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 1989]» اس روایت کی سند تو ضعیف ہے لیکن اس کے شواہد صحیحہ موجود ہیں۔ دیکھئے: [مسلم 1977]، [أبوداؤد 2795]، [ترمذي 1521،] [ابن ماجه 3121]، [أبويعلی 1792]، [مجمع الزوائد 6047]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح بشواهده