سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر

سنن دارمي
حج اور عمرہ کے بیان میں
56. باب في الْمُحْصَرِ بِعَدُوٍّ:
56. جو شخص دشمن یا بیماری کے سبب حج سے روک دیا جائے وہ کیا کرے؟
حدیث نمبر: 1931
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن سعيد، حدثنا ابو اسامة، عن عبيد الله، عن نافع، ان عبد الله بن عبد الله، وسالما كلما ابن عمر ليالي نزل الحجاج بابن الزبير، قبل ان يقتل، فقالا: لا يضرك ان لا تحج العام، نخاف ان يحال بينك وبين البيت. فقال:"قد خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم معتمرين، فحال كفار قريش دون البيت، فنحر رسول الله صلى الله عليه وسلم هديه، وحلق راسه، ثم رجع، فاشهدكم اني قد اوجبت عمرة، فإن خلي بيني وبين البيت، طفت، وإن حيل بيني وبينه، فعلت كما كان فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا معه، فاهل بالعمرة من ذي الحليفة، ثم سار، فقال: إنما شانهما واحد، اشهدكم اني قد اوجبت حجا مع عمرتي. قال نافع: فطاف لهما طوافا واحدا، وسعى لهما سعيا واحدا، ثم لم يحل حتى جاء يوم النحر فاهدى، وكان يقول: من جمع العمرة والحج فاهل بهما جميعا، فلا يحل حتى يحل منهما جميعا يوم النحر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، وَسَالِمًا كَلَّمَا ابْنَ عُمَرَ لَيَالِيَ نَزَلَ الْحَجَّاجُ بِابْنِ الزُّبَيْرِ، قَبْلَ أَنْ يُقْتَلَ، فَقَالَا: لَا يَضُرُّكَ أَنْ لَا تَحُجَّ الْعَامَ، نَخَافُ أَنْ يُحَالَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الْبَيْتِ. فَقَالَ:"قَدْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَمِرِينَ، فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ دُونَ الْبَيْتِ، فَنَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدْيَهُ، وَحَلَقَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَجَعَ، فَأُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ عُمْرَةً، فَإِنْ خُلِّيَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْبَيْتِ، طُفْتُ، وَإِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، فَعَلْتُ كَمَا كَانَ فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ، فَأَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، ثُمَّ سَارَ، فَقَالَ: إِنَّمَا شَأْنُهُمَا وَاحِدٌ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ حَجًّا مَعَ عُمْرَتِي. قَالَ نَافِعٌ: فَطَافَ لَهُمَا طَوَافًا وَاحِدًا، وَسَعَى لَهُمَا سَعْيًا وَاحِدًا، ثُمَّ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى جَاءَ يَوْمَ النَّحْرِ فَأَهْدَى، وَكَانَ يَقُولُ: مَنْ جَمَعَ الْعُمْرَةَ وَالْحَجَّ فَأَهَلَّ بِهُمَا جَمِيعًا، فَلَا يَحِلَّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا يَوْمَ النَّحْرِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بیٹے عبداللہ اور سالم نے اپنے والد سے ان دنوں میں لڑائی سے پہلے گفتگو کی جب کہ حجاج سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں اتر پڑا تھا، ان دونوں (بیٹوں) نے کہا: اس سال آپ حج نہ کریں تو کوئی حرج نہیں ہے، ہم کو ڈر ہے کہ آپ اور بیت اللہ کے درمیان رکاوٹ نہ ڈال دی جائے؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ عمرے کی غرض سے نکلے، کفار قریش ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان رکاوٹ بن گئے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں اپنے اونٹ کو ذبح کیا اور سر منڈایا پھر وہاں سے واپس ہو لئے، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں عمرے کا عزم کر چکا ہوں، اگر میرے اور خانہ کعبہ کے درمیان رکاوٹ نہ ڈالی گئی تو میں طواف کعبہ کر لوں گا، اور اگر رکاوٹ ڈالی گئی تو ویسے ہی کروں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور میں آپ کے ساتھ تھا، پس انہوں نے (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے) ذوالحلیفہ سے عمرے کا احرام باندھا پھر روانہ ہوئے تو کہا: حج و عمرہ کی بات ایک ہی ہے، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کے ساتھ حج کو واجب کرلیا ہے (یعنی حج قران کی نیت کر لی ہے)، نافع نے کہا: پھر انہوں نے ایک طواف اور حج و عمرے کی ایک سعی کی اور قربانی کے دن تک احرام نہیں کھولا، اور وہ کہا کرتے تھے (یعنی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما) جو شخص عمرے اور حج کو ملا کر دونوں کے لئے احرام باندھے تو وہ قربانی کے دن تک اس وقت تک حلال نہ ہو گا جب تک کہ ان دونوں سے حلال نہ ہو جائے (یعنی حج و عمرے سے جب تک فارغ نہ ہو احرام نہ کھولے)۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 1930)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ احرام باندھنے کے بعد اگر کوئی شرعی عارضہ پیش آجائے تو احرام کھولا جا سکتا ہے، اور اس کی قضا واجب ہے، اس حدیث میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا تمسک بالسنۃ کا بہترین نمونہ ہے، جب ان کے فرزندان نے لڑائی جھگڑے کی وجہ سے انہیں روکنا چاہا اور کہا کہ ہمیں ڈر ہے آپ کو حج بیت اللہ سے روک نہ دیا جائے تو اتباعِ سنّت میں ڈوبے لہجے میں فرمایا: اگر مجھے اس سے روکا گیا تو وہی کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1935]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1639، 1640]، [مسلم 1230]، [أبويعلی 5500]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.