(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله، عن إسرائيل، عن منصور، عن سالم، عن ابي سلمة، عن ام سلمة، قالت: "ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم صام شهرا تاما إلا شعبان، فإنه كان يصله برمضان ليكونا شهرين متتابعين، وكان يصوم من الشهر حتى نقول: لا يفطر , ويفطر حتى نقول: لا يصوم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: "مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَامَ شَهْرًا تَامًّا إِلَّا شَعْبَانَ، فَإِنَّهُ كَانَ يَصِلُهُ بِرَمَضَانَ لِيَكُونَا شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، وَكَانَ يَصُومُ مِنْ الشَّهْرِ حَتَّى نَقُولَ: لَا يُفْطِرُ , وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: لَا يَصُومُ".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائے شعبان کے کسی مہینے میں پورے مہینے کے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، آپ شعبان کے روزوں کو رمضان سے ملا دیا کرتے تھے تاکہ پورے دو مہینے کے مسلسل روزے ہو جائیں، آپ مہینے میں روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے: اب آپ افطار نہ کریں گے، پھر افطار کرتے تو ہم کہتے تھے: اب روزہ نہ رکھیں گے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1776) اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے شعبان کے روزے رکھنے کا ذکر ہے، لیکن بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں پورے شعبان کے روزے رکھنے کی ممانعت ہے جو اس حدیث پر مقدم ہے۔ کیونکہ قول و فعل کے تعارض میں قول مقدم ہوتا ہے، ایک روایت میں ہے کہ جو کوئی تم سے بیان کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے سوا کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھے تو اس کی تصدیق نہ کرنا۔ اسی طرح حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (1514) میں گذر چکا ہے کہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھے۔ آگے حدیث نمبر (1781) میں بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی طرح مروی ہے۔ اس لئے 15 شعبان کے بعد روزہ نہیں رکھنا چاہئے، والله اعلم۔ احتیاط اسی میں ہے کہ پندرہ شعبان کے بعد رمضان شروع ہونے تک روزے نہ رکھے جائیں جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1780]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2336]، [ترمذي 736]، [نسائي 2174]، [ابن ماجه 1648]، [أبويعلی 6970]