سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر

سنن دارمي
روزے کے مسائل
30. باب فِيمَنْ يُصْبِحُ صَائِماً تَطَوُّعاً ثُمَّ يُفْطِرُ:
30. کوئی شخص نفلی روزہ رکھے پھر صبح کو افطار کر لے
حدیث نمبر: 1774
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن محمد , حدثنا جرير، عن يزيد بن ابي زياد، عن عبد الله بن الحارث، عن ام هانئ، قالت: لما كان يوم فتح مكة، جاءت فاطمة فجلست عن يسار رسول الله صلى الله عليه وسلم وام هانئ عن يمينه. قالت: فجاءت الوليدة بإناء فيه شراب فناولته، فشرب منه ثم ناوله ام هانئ، فشربت منه ثم قالت: يا رسول الله، لقد افطرت، وكنت صائمة. فقال لها: "اكنت تقضين شيئا؟ قالت: لا. قال:"فلا يضرك إن كان تطوعا". قال ابو محمد: اقول به.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، قَالَتْ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ، جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَجَلَسَتْ عَنْ يَسَارِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمُّ هَانِئٍ عَنْ يَمِينِهِ. قَالَتْ: فَجَاءَتْ الْوَلِيدَةُ بِإِنَاءٍ فِيهِ شَرَابٌ فَنَاوَلَتْهُ، فَشَرِبَ مِنْهُ ثُمَّ نَاوَلَهُ أُمَّ هَانِئٍ، فَشَرِبَتْ مِنْهُ ثُمَّ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ أَفْطَرْتُ، وَكُنْتُ صَائِمَةً. فَقَالَ لَهَا: "أَكُنْتِ تَقْضِينَ شَيْئًا؟ قَالَتْ: لَا. قَالَ:"فَلَا يَضُرُّكِ إِنْ كَانَ تَطَوُّعًا". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: أَقُولُ بِهِ.
سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے کہا: فتح مکہ کے دن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف بیٹھ گئیں، اور سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا دائیں طرف تھیں، انہوں نے کہا: لونڈی پانی کا برتن لے کر آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا، آپ نے اس سے پانی پیا، پھر سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کو دیا، انہوں نے بھی اس برتن سے پانی پیا پھر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں تو روزے سے تھی اور اب روزه توڑ دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قضا کا روزہ تھا؟ عرض کیا: نہیں، فرمایا: تب کوئی حرج نہیں جبکہ نفلی روز ہ تھا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: یہ ہی میرا قول ہے (یعنی نفلی روزہ اگر توڑ دیا تو کہا کوئی حرج نہیں)۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 1773)
«فَلَا يَضُرُّكِ» یعنی کچھ گناہ نہیں، اس سے اختلاف ہوا کہ نفلی روزے کو توڑا ہے تو اس کی قضا ہے یا نہیں، صحیح یہ ہے کہ قضا ضرور کرنی چاہیے کیونکہ ایک اور حدیث میں ہے: اس کی جگہ پر دوسرے دن روزہ رکھ لینا۔
والله اعلم۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبي زياد، [مكتبه الشامله نمبر: 1777]»
اس حدیث کی سند بھی ضعیف ہے۔ تفصیل اوپر گذر چکی ہے۔ مزید دیکھئے: [أبوداؤد 2456]، [البيهقي 277/4]، [فتح الباري 212/4]، [نيل الأوطار 346/4-348]، [المعرفة للبيهقي 8924]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبي زياد


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.