(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن البراء، قال: كان اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم إذا كان الرجل صائما فحضر الإفطار، فنام قبل ان يفطر لم ياكل ليلته ولا يومه حتى يمسي، وإن قيس بن صرمة الانصاري كان صائما، فلما حضر الإفطار، اتى امراته، فقال: عندك طعام؟ فقالت: لا، ولكن انطلق فاطلب لك، وكان يومه يعمل، فغلبته عينه، وجاءت امراته، فلما راته، قالت: خيبة لك. فلما انتصف النهار، غشي عليه فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، "فنزلت هذه الآية: احل لكم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم هن لباس لكم وانتم لباس لهن علم الله انكم كنتم تختانون انفسكم فتاب عليكم وعفا عنكم فالآن باشروهن وابتغوا ما كتب الله لكم وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود من الفجر ثم اتموا الصيام إلى الليل ولا تباشروهن وانتم عاكفون في المساجد تلك حدود الله فلا تقربوها كذلك يبين الله آياته للناس لعلهم يتقون سورة البقرة آية 187، ففرحوا بها فرحا شديدا، واكلوا واشربوا حتى تبين لهم الخيط الابيض من الخيط الاسود".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ الرَّجُلُ صَائِمًا فَحَضَرَ الْإِفْطَارُ، فَنَامَ قَبْلَ أَنْ يُفْطِرَ لَمْ يَأْكُلْ لَيْلَتَهُ وَلَا يَوْمَهُ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنَّ قَيْسَ بْنَ صِرْمَةَ الْأَنْصَارِيَّ كَانَ صَائِمًا، فَلَمَّا حَضَرَ الْإِفْطَارُ، أَتَى امْرَأَتَهُ، فَقَالَ: عِنْدَكِ طَعَامٌ؟ فَقَالَتْ: لَا، وَلَكِنْ أَنْطَلِقُ فَأَطْلُبُ لَكَ، وَكَانَ يَوْمَهُ يَعْمَلُ، فَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ، وَجَاءَتْ امْرَأَتُهُ، فَلَمَّا رَأَتْهُ، قَالَتْ: خَيْبَةً لَكَ. فَلَمَّا انْتَصَفَ النَّهَارُ، غُشِيَ عَلَيْهِ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، "فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ سورة البقرة آية 187، فَفَرِحُوا بِهَا فَرَحًا شَدِيدًا، وَأَكُلُوا وَاشَرِبُوا حَتَّى تَبَيَّنَ لَهُمْ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ".
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے کہا: ابتدائے اسلام میں جب اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوتے اور افطار کا وقت آتا تو کوئی روزے دار اگر افطار سے پہلے سو جاتا تو اس رات بھی اور آنے والے دن بھی شام تک وہ کھا نہیں سکتا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ سیدنا قیس بن صرمہ انصاری رضی اللہ عنہ روزے سے تھے، جب افطار کا وقت ہوا تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور کہا: تمہارے پاس کھانے کو کچھ ہے؟ انہوں نے کہا: اس وقت تو کچھ نہیں لیکن میں جاتی ہوں کہیں سے لے آؤں گی، قیس نے دن بھر کام کیا تھا اس لئے ان کی آنکھ لگ گئی، جب بیوی واپس آئیں تو انہیں سوتے دیکھا تو کہا: افسوس تم محروم رہ گئے، جب دوپہر ہوئی تو قیس کو غش آ گیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی: «أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ ......»[بقره: 187/2] یعنی حلال کر دیا گیا تمہارے لئے رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے صحبت کرنا۔ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت خوش ہوئے اور انہوں نے کھایا اور پیا یہاں تک کہ ظاہر ہو گئی ان کے لئے (صبح کی) سفید دھاری کالی سیاہ دھاری سے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1730) سیاہ دھاری سے مراد صبحِ کاذب رات کی اندھیری ہے، اور سفید دھاری صبحِ صادق اور صبح کا اجالا ہے، ابتدائے اسلام میں لوگ افطار کے بعد کھاتے پیتے، عورتوں سے صحبت کرتے، لیکن سونے کے بعد کچھ نہیں کر سکتے تھے حتیٰ کہ افطار کا وقت آجائے۔ لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے روزے کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور مذکورہ بالا آیتِ شریفہ نازل ہوئی اور جملہ مشکلات آسان ہوگئیں، تب لوگوں کو سکون و راحت ملی۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1735]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1915]، [أبوداؤد 2314]، [ترمذي 2968]، [ابن حبان 3460، 3461]