(حديث مرفوع) حدثنا إسحاق بن إبراهيم، حدثنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن قتادة، عن زرارة بن اوفى، عن سعد بن هشام انه طلق امراته واتى المدينة لبيع عقاره فيجعله في السلاح والكراع، فلقي رهطا من الانصار، فقالوا: اراد ذلك ستة منا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فمنعهم وقال:"اما لكم في اسوة؟". ثم إنه قدم البصرة، فحدثنا انه لقي عبد الله بن عباس فساله عن الوتر، فقال: الا احدثك باعلم الناس بوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قلت: بلى، قال: ام المؤمنين عائشة، فاتها فاسالها ثم ارجع إلي فحدثني بما تحدثك. فاتيت حكيم بن افلح فقلت له: انطلق معي إلى ام المؤمنين عائشة، قال: إني لا آتيها، إني نهيت عن هاتين الشيعتين، فابت إلا مضيا. قلت: اقسمت عليك لما انطلقت، فانطلقنا، فسلمنا، فعرفت صوت حكيم، فقالت: من هذا؟ قلت: سعد بن هشام. قالت: من هشام؟ قلت: هشام بن عامر. قالت: نعم المرء، قتل يوم احد. قلت: اخبرينا عن خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم. قالت: "الست تقرا القرآن؟ قلت: بلى. قالت: فإنه خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم"، فاردت ان اقوم ولا اسال احدا عن شيء حتى الحق بالله، فعرض لي القيام. فقلت: اخبرينا عن قيام رسول الله صلى الله عليه وسلم. قالت: "الست تقرا يا ايها المزمل؟ قلت: بلى. قالت: فإنها كانت قيام رسول الله صلى الله عليه وسلم، انزل اول السورة فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه حتى انتفخت اقدامهم، وحبس آخرها في السماء ستة عشر شهرا، ثم انزل، فصار قيام الليل تطوعا بعد ان كان فريضة"، فاردت ان اقوم ولا اسال احدا عن شيء حتى الحق بالله، فعرض لي الوتر. فقلت: اخبرينا عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم "إذا نام، وضع سواكه عندي فيبعثه الله لما شاء ان يبعثه، فيصلي تسع ركعات لا يجلس إلا في الثامنة، فيحمد الله ويدعو ربه، ثم يقوم ولا يسلم، ثم يجلس في التاسعة، فيحمد الله ويدعو ربه ويسلم تسليمة يسمعنا، ثم يصلي ركعتين وهو جالس، فتلك إحدى عشرة ركعة، يا بني، فلما اسن رسول الله صلى الله عليه وسلم وحمل اللحم، صلى سبع ركعات لا يجلس إلا في السادسة، فيحمد الله ويدعو ربه، ثم يقوم ولا يسلم، ثم يجلس في السابعة، فيحمد الله ويدعو ربه، ثم يسلم تسليمة، ثم يصلي ركعتين وهو جالس، فتلك تسع، يا بني، وكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا غلبه نوم او مرض، صلى من النهار ثنتي عشرة ركعة، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اخذ خلقا، احب ان يداوم عليه، وما قام نبي الله صلى الله عليه وسلم ليلة حتى يصبح، ولا قرا القرآن كله في ليلة، ولا صام شهرا كاملا غير رمضان". فاتيت ابن عباس، فحدثته، فقال: صدقتك، اما إني لو كنت ادخل عليها، لشافهتها مشافهة. قال: فقلت: اما إني لو شعرت انك لا تدخل عليها ما حدثتك..(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَأَتَى الْمَدِينَةَ لِبَيْعِ عَقَارِهِ فَيَجْعَلَهُ فِي السِّلَاحِ وَالْكُرَاعِ، فَلَقِيَ رَهْطًا مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالُوا: أَرَادَ ذَلِكَ سِتَّةٌ مِنَّا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَنَعَهُمْ وَقَالَ:"أَمَا لَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ؟". ثُمَّ إِنَّهُ قَدِمَ الْبَصْرَةَ، فَحَدَّثَنَا أَنَّهُ لَقِيَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلَهُ عَنْ الْوِتْرِ، فَقَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكَ بِأَعْلَمِ النَّاسِ بِوِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةُ، فَأْتِهَا فَاسْأَلْهَا ثُمَّ ارْجِعْ إِلَيَّ فَحَدِّثْنِي بِمَا تُحَدِّثُكَ. فَأَتَيْتُ حَكِيمَ بْنَ أَفْلَحَ فَقُلْتُ لَهُ: انْطَلِقْ مَعِي إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ، قَالَ: إِنِّي لَا آتِيهَا، إِنِّي نَهَيْتُ عَنْ هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ، فَأَبَتْ إِلَّا مُضِيًّا. قُلْتُ: أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ لَمَا انْطَلَقْتَ، فَانْطَلَقْنَا، فَسَلَّمْنَا، فَعَرَفَتْ صَوْتَ حَكِيمٍ، فَقَالَتْ: مَنْ هَذَا؟ قُلْتُ: سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ. قَالَتْ: مَنْ هِشَامٌ؟ قُلْتُ: هِشَامُ بْنُ عَامِرٍ. قَالَتْ: نِعْمَ الْمَرْءُ، قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ. قُلْتُ: أَخْبِرِينَا عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَتْ: "أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قُلْتُ: بَلَى. قَالَتْ: فَإِنَّهُ خُلُقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُومَ وَلَا أَسْأَلَ أَحَدًا عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَلْحَقَ بِاللَّهِ، فَعَرَضَ لِي الْقِيَامُ. فَقُلْتُ: أَخْبِرِينَا عَنْ قِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَتْ: "أَلَسْتَ تَقْرَأُ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ؟ قُلْتُ: بَلَى. قَالَتْ: فَإِنَّهَا كَانَتْ قِيَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُنْزِلَ أَوَّلُ السُّورَةِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ، وَحُبِسَ آخِرُهَا فِي السَّمَاءِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ أُنْزِلَ، فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ أَنْ كَانَ فَرِيضَةً"، فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُومَ وَلَا أَسْأَلَ أَحَدًا عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَلْحَقَ بِاللَّهِ، فَعَرَضَ لِي الْوِتْرُ. فَقُلْتُ: أَخْبِرِينَا عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "إِذَا نَامَ، وَضَعَ سِوَاكَهُ عِنْدِي فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ لِمَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ، فَيُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ، فَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيَدْعُو رَبَّهُ، ثُمَّ يَقُومُ وَلَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يَجْلِسُ فِي التَّاسِعَةِ، فَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيَدْعُو رَبَّهُ وَيُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً يُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يَا بُنَيَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَمَلَ اللَّحْمَ، صَلَّى سَبْعَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ إِلَّا فِي السَّادِسَةِ، فَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيَدْعُو رَبَّهُ، ثُمَّ يَقُومُ وَلَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يَجْلِسُ فِي السَّابِعَةِ، فَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيَدْعُو رَبَّهُ، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَتِلْكَ تِسْعٌ، يَا بُنَيَّ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا غَلَبَهُ نَوْمٌ أَوْ مَرَضٌ، صَلَّى مِنْ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَخَذَ خُلُقًا، أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهِ، وَمَا قَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً حَتَّى يُصْبِحَ، وَلَا قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ، وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ". فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ: صَدَقَتْكَ، أَمَا إِنِّي لَوْ كُنْتُ أَدْخُلُ عَلَيْهَا، لَشَافَهْتُهَا مُشَافَهَةً. قَالَ: فَقُلْتُ: أَمَا إِنِّي لَوْ شَعَرْتُ أَنَّكَ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهَا مَا حَدَّثْتُكَ..
سعد بن ہشام سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور زمین جائیداد بیچنے کے لئے مدینہ منورہ تشریف لائے تاکہ (اس کی قیمت سے) اسلحہ اور گھوڑے خریدیں، چنانچہ وہ انصار کی ایک جماعت سے ملے تو انہوں نے بتایا کہ ہم میں سے چھ افراد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایسا ہی ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا اور فرمایا: ”کیا تمہارے لئے میرا اسوه (اچھا) نہیں ہے؟“ پھر وہ (سعد) واپس بصرہ لوٹ آئے اور بیان کیا کہ وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ملے اور ان سے وتر کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت کا پتہ نہ بتلا دوں؟ میں نے کہا: ضرور بتایئے، کہا: وہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، لہٰذا تم ان کے پاس جاؤ اور ان سے دریافت کرو، پھر میرے پاس آنا اور بتانا کہ انہوں نے کیا بیان کیا، میں حکیم بن افلح کے پاس گیا اور ان سے درخواست کی کہ میرے ساتھ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلئے، حکیم نے کہا: میں تو ان کے پاس نہیں جاؤں گا، میں نے ان کو دونوں گروہوں کے بیچ بولنے سے منع کیا تھا (یعنی صحابہ کرام کی آپسی لڑائی میں) لیکن انہوں نے نہیں مانا اور چلی گئیں، لیکن میں نے حکیم سے اصرار کیا، قسم دلائی، آخر وہ راضی ہو گئے اور ہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چل پڑے، انہیں جب ہم نے سلام کیا تو وہ حکیم کی آواز کو پہچان گئیں، اور کہا: یہ کون ہیں، انہوں نے بتایا کہ یہ سعد بن ہشام ہیں، پوچھا کون سے ہشام؟ میں نے کہا: ہشام بن عامر، کہنے لگیں: وہ کتنے اچھے شخص تھے، احد کے دن شہید ہو گئے، میں نے عرض کیا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتایئے، کہا: کیا تم قرآن پاک نہیں پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: یقیناً پڑھتا ہوں، انہوں نے کہا: آپ کا خلق وہی تھا جو قرآن میں ہے، پھر میں نے چلنے کا ارادہ کیا اور چاہا کہ موت کے وقت تک کسی سے کوئی چیز نہ پوچھوں، لیکن مجھے قیام کا مسئلہ یاد آ گیا اور میں نے عرض کیا: آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے بارے میں بتلایئے، جواب دیا: کیا تم «يا ايها المزمل» نہیں پڑھتے ہو؟ عرض کیا: پڑھتا ہوں، فرمایا: وہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام تھا، اس سورة کی ابتدائی آیات جب نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے قیام کیا یہاں تک کہ ان کے پیر سوج گئے، اور آخری آیت کو آسمان میں سولہ مہینے تک (نزول سے) روک لیا گیا، پھر جب آخری آیت نازل ہوئی تو قیام الیل (تہجد) فرض سے نفل قرار پائی، میں نے پھر ارادہ کیا کہ اٹھ جاؤں اور اللہ سے ملاقات کے وقت تک اب کسی سے کوئی سوال نہ کروں کہ وتر کا مجھے خیال آ گیا، چنانچہ میں نے عرض کیا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں بتایئے، فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آرام کا ارادہ کرتے تو مسواک میرے پاس رکھ دیتے، پھر جب اللہ تعالیٰ چاہتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا دیتا تو آپ نو رکعت نماز پڑھتے اور آٹھویں رکعت پر (تشہد کے لئے) بیٹھتے، اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے اور پروردگار سے دعا مانگتے، اور پھر ایک بار ہی سلام پھیرتے جو ہمیں سنا دیتے، پھر بیٹھ کر دو رکعت پڑھتے، اے بیٹے! یہ کل گیارہ رکعتیں ہوتیں تھیں، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر زیادہ ہوئی اور بدن بھاری ہو گیا، تو آپ نے سات رکعتیں پڑھیں، جن میں چھٹی رکعت میں بیٹھتے، اللہ کی تعریف کرتے، اس سے دعا مانگتے اور پھر ایک بار سلام پھیرتے، پھر بیٹھے بیٹھے دو رکعت نماز پڑھتے، اس طرح اے بیٹے! یہ کل نو رکعتیں ہوئیں، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نیند یا کسی بیماری کا غلبہ ہوتا (اور رات میں تہجد نہ پڑھ پاتے) تو دن میں بارہ رکعت نفل نماز پڑھتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی اچھے کام کو اپناتے تو اس پر ہمیشگی آپ کو محبوب تھی، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری رات صبح تک کبھی قیام نہیں کیا، اور نہ آپ نے ایک رات میں پورا قرآن پڑھا، اور نہ آپ نے رمضان کے علاوہ کسی پورے مہینے کے روزے رکھے۔ یہ سن کر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوری حدیث انہیں سنا دی تو انہوں نے کہا: انہوں (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) نے تمہیں سچی بات بتائی، اگر میں ان کے پاس جاتا ہوتا تو منہ در منہ ان سے یہ حدیث سنتا، میں نے کہا: اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ ان کے پاس نہیں جاتے ہیں تو میں کبھی ان کی بات آپ سے نہ کہتا۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1513) اس طویل حدیث سے بہت سارے مسائل معلوم ہوئے۔ چند ایک یہ ہیں: سعد بن ہشام کا دین و جہاد کی محبت میں بیوی کو طلاق دینا اور زمین و جائداد بیچ دینا، لیکن انصاری بھائیوں سے صحیح بات معلوم ہونے پر بیوی سے رجوع کر لینا ثابت ہوا، اور یہی دینِ اسلام کی خصوصیت ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو رہبانیت اور خانقاہیت سے دور رکھتا ہے۔ سعد بن ہشام خود قرونِ مفضلہ اولیٰ کے علمائے تابعین میں سے ہیں لیکن اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے اپنے علم کو ناقص محسوس کرتے ہیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بڑے جامع انداز میں ان کے تمام سوالوں کا شافی جواب دیا اس سے ان کی فضلیت معلوم ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی قرآن پاک کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ الله تعالیٰ کی رحمت و مہربانی کہ تہجد کی نماز اوّل اسلام میں فرض ہوئی لیکن پھر نفل قرار دی گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسواک کرنا اور اس کا رات میں بھی اہتمام نظافت کی دلیل اور سنّت قرار پائی۔ اس حدیث کا اہم مسئلہ رات کی نماز کا طریقہ ہے اور اس حدیث میں اُم المومنین نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعت دو شہد اور ایک تسلیم سے پڑھتے تھے۔ آٹھویں رکعت پر پہلا تشہد پھر نویں رکعت پڑھ کر تشہد کرتے اور سلام پھیر لیتے، پھر دو رکعت نماز پڑھتے، اور کبھی سات رکعت پڑھتے تو چھٹی رکعت میں پہلا تشہد اور ساتویں پر دوسرا تشہد کرتے اور سلام پھیرتے پھر دو رکعت بیٹھ کر نماز پڑھتے، اس طرح 9، 11، 13، رکعت تہجد پڑھنا ثابت ہوا، اور زیادہ تر عمل گیارہ رکعت پڑھنے کا ہے، وتر کی احادیثِ صحیحہ میں دو کیفیات ذکر کی گئی ہیں، تین رکعت ایک تشہد سے یا دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیتے پھر ایک رکعت وتر پڑھتے اور اکثر روایات سے یہی ثابت ہے، نیز مغرب کی نماز کی طرح وتر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت نماز پڑھی ہے «(ولنا فيه أسوة)»، اس لئے اس میں کوئی قباحت نہیں اور یہ کہنا کہ ایک رکعت کی کوئی نماز نہیں مذکورہ بالا «أدلة صحيحة» کے سراسر خلاف ہے۔ اس حدیث کے جملہ: «ما قام نبي اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حتىٰ يصبح» سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پوری رات قیام نہیں کیا۔ اسی طرح «ولا قرأ القرآن كله، فى ليلة» سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات میں کبھی پورا قرآن بھی ختم نہیں کیا اور نہ کبھی رمضان کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے مہینے کے روزے رکھے، اس لئے پوری رات تہجد پڑھنا یا ایک رات میں قرآن ختم کرنا سب خلافِ سنّتِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ نیز وتر کے بعد بیٹھ کر نماز پڑھنا یہ فعل ہے جو قول «اِجْعَلُوْا آخِرَ صَلَاتِكُمْ وِتْرًا» کے خلاف ہے، اور قول فعل پر مقدم ہوتا ہے، اور جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: ایسا کرنا صرف ایک بار ہی ثابت ہے، اور یہ بھی فعل ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خصوصیت کا حامل ہو سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔