حدثنا موسى، قال: حدثنا ابو عوانة، عن يزيد بن ابي زياد، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن ابن عمر قال: كنا في غزوة، فحاص الناس حيصة، قلنا: كيف نلقى النبي صلى الله عليه وسلم وقد فررنا؟ فنزلت: ﴿إلا متحرفا لقتال﴾ [الانفال: 16]، فقلنا: لا نقدم المدينة، فلا يرانا احد، فقلنا: لو قدمنا، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم من صلاة الفجر، قلنا: نحن الفرارون، قال: ”انتم العكارون“، فقبلنا يده، قال: ”انا فئتكم.“حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كُنَّا فِي غَزْوَةٍ، فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً، قُلْنَا: كَيْفَ نَلْقَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ فَرَرْنَا؟ فَنَزَلَتْ: ﴿إِلاَّ مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ﴾ [الأنفال: 16]، فَقُلْنَا: لاَ نَقْدِمُ الْمَدِينَةَ، فَلاَ يَرَانَا أَحَدٌ، فَقُلْنَا: لَوْ قَدِمْنَا، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلاَةِ الْفَجْرِ، قُلْنَا: نَحْنُ الْفَرَّارُونَ، قَالَ: ”أَنْتُمُ الْعَكَّارُونَ“، فَقَبَّلْنَا يَدَهُ، قَالَ: ”أَنَا فِئَتُكُمْ.“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوے (موتہ) میں تھے کہ لوگ یک بار بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہم نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے کہ ہم میدانِ جنگ سے بھاگ آئے ہیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”سوائے اس کے جو جنگ کے لیے رخ بدل لے۔“ ہم نے کہا کہ ہم مدینہ نہیں جائیں گے تاکہ کوئی ہمیں نہ دیکھے، پھر ہم نے کہا: اگر چلے جائیں (تو یہی بہتر ہے)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر سے فارغ ہوئے تو ہم نے کہا: ہم بھگوڑے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دوبارہ حملہ کرنے والے ہو، نہ کہ بھاگنے والے۔“ تب ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک کا بوسہ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے لیے مرکزی شخصیت ہوں، میری طرف ہی آنا چاہیے۔“
تخریج الحدیث: «ضعيف: سنن أبى داؤد، الجهاد، ح: 2647 و جامع الترمذي، الجهاد، ح: 1716»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 972
فوائد ومسائل: یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، تاہم علماء نے کسی کے علم و عمل اور نیکی و تقویٰ کی وجہ سے ازراہ محبت اس کے ہاتھ یا سر کا بوسہ لینا جائز قرار دیا ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 972