وعن عبدة، عن ابن ابي خالد، عن قيس، عن جرير بن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”من لا يرحم الناس لا يرحمه الله.“وَعَنْ عَبْدَةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَنْ لَا يَرْحَمُ النَّاسَ لَا يَرْحَمُهُ اللَّهُ.“
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے (ایک دوسری سند سے) مروی ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ اس پر رحم نہیں کرے گا۔“
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 97
فوائد ومسائل: (۱)مندرجہ بالا تینوں احادیث صحیح ہیں جن میں اللہ کی مخلوق بالخصوص انسانوں کے ساتھ رحمت و شفقت کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کو مخلوق پر رحم سے مشروط کر دیا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے تو تم اس کی مخلوق پر رحم کرو۔ یہ بات یقینی ہے کہ ایک انسان جس قدر دوسرے انسان کی رحمت و شفقت کا محتاج ہوتا ہے اس سے کہیں بڑھ کر وہ خود اللہ کی رحمت کا محتاج ہوتا ہے۔ اس کی رحمت کے بغیر دنیا و آخرت تباہ ہو جاتی ہے۔ (۲) نبی صلی اللہ علیہ وسلم جانوروں پر بھی رحمت اور شفقت کرتے تھے اور اپنی امت کو بھی اس کی تعلیم دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری کو منبر بنانے سے روکا ہے کہ انسان کسی جانور پر سوار ہو اور کھڑا کسی کے ساتھ گپ شپ کرتا رہے بلکہ فرمایا کہ نیچے اتر کر گفتگو کی جائے۔ اسی طرح جانوروں پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے بھی روکا ہے۔ جانوروں پر لعنت کرنے اور ان کے چہرے کو داغنا حرام قرار دیا ہے۔ تیز چھری کے ساتھ جانور ذبح کرنے کا حکم دیا کہ جانور کو تکلیف نہ ہو۔ اسی طرح جانور کے سامنے چھری تیز کرنے سے منع کر دیا تاکہ موت سے پہلے ہی اسے نہ مارا جائے۔ یہ ساری باتیں رحم پر دلالت کرتی ہیں۔ جو شخص ان باتوں کا خیال نہیں رکھتا اور اللہ کی مخلوق پر رحم نہیں کرتا وہ اللہ کی رحمت سے محروم رہتا ہے۔ (۳) ایک فاحشہ عورت نے ایک کتے پر ترس کھاتے ہوئے اسے پانی پلایا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم فرما دیا جبکہ دوسری طرف ایک عورت کو اس بات پر عذاب دیا گیا کہ اس نے ایک بلی کو باندھ دیا اور اس رحم نہ کیا حتی کہ وہ اسی طرح مرگئی۔ اللہ کی مخلوق پر رحم جہنم سے بچنے کا ذریعہ ہے جبکہ ان پر ظلم جنت سے محرومی کا باعث ہے۔ (۴) جاگیر داروں کے لیے اور ماتحتوں سے نا روا سلوک کرنے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اللہ کی مخلوق بلکہ اشرف المخلوقات انسانوں کے ساتھ حیوانوں جیسا سلوک انہیں کس تباہی کی طرف لے جائے گا۔ وہ تباہی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محرومی ہے۔ (۵) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجبور اور لاچار شخص سے تعاون کرنا چاہیے اور محتاج کی ضرورت کا خیال رکھنا چاہیے۔ (۶) اللہ تعالیٰ صفت ”رحمت“ سے متصف ہے، جیسے اس کی شان کے لائق ہے۔ اس کی رحمت میں وہ بشری علائق نہیں ہیں جو ایک انسان کے اندر ہوتے ہیں کہ وہ بسا اوقات رحمت و شفقت سے مغلوب ہو جاتا ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 97