حدثنا محمد بن الصباح، قال: حدثنا إسماعيل بن زكريا، عن ابي جعفر الفراء، عن عبد الله بن يزيد، عن البراء بن عازب قال: من تمام التحية ان تصافح اخاك.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْفَرَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: مِنْ تَمَامِ التَّحِيَّةِ أَنْ تُصَافِحَ أَخَاكَ.
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: سلام کا پورا ہونا یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے مصافحہ کرے۔
تخریج الحدیث: «صحيح الإسناد موقوفًا: تفرد به المصنف»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 968
فوائد ومسائل: ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا مستحب اور مسنون ہے۔ اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ اہل مدینہ میں اس کا زیادہ رواج نہ تھا۔ اہل یمن مسلمان ہوئے تو زبانی سلام کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسے بھی رواج دیا اور ان کے اس عمل کی تائید رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دی۔ اس لیے ملاقات کے وقت مصافحے کا اہتمام کرنا چاہیے، تاہم زبان کے ساتھ سلام بھی ضروری ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ جب ایک دوسرے سے ملاقات کرتے تو مصافحہ کرتے اور جب سفر سے واپس آتے تو معانقہ کرتے تھے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 968