حدثنا موسى بن إسماعيل، قال: حدثنا حماد بن سلمة، عن حميد، عن انس قال: ما كان شخص احب إليهم رؤية من النبي صلى الله عليه وسلم، وكانوا إذا راوه لم يقوموا إليه، لما يعلمون من كراهيته لذلك.حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: مَا كَانَ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ رُؤْيَةً مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا إِلَيْهِ، لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاهِيَتِهِ لِذَلِكَ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے زیادہ کوئی شخص صحابۂ کرام کو زیادہ محبوب نہ تھا، اور وہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریف لاتا دیکھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھڑے نہیں ہوتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو نا پسند کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح: جامع الترمذي، الأدب، ح: 2754 و أحمد: 250/3»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 946
فوائد ومسائل: (۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب انسانوں سے بڑھ کر عزت اور تکریم کے لائق تھے اور تکبر سے بھی کوسوں دور تھے لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام آپ کے لیے کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ آپ اسے ناپسند کرتے تھے۔ تو کسی اور شخص کے لیے ایسا کرنا کیونکر جائز ہوسکتا ہے۔ (۲) عصر حاضر میں استاد یا کسی بڑے شخص کے آنے پر سب کا کھڑا ہوجانا ناجائز ہے۔ آگے بڑھ کر مصافحہ کرنا اور بات ہے لیکن تکریماً اپنی جگہ پر کھڑا ہونا جائز نہیں اسی طرح سلامی کا جو طریقہ فوج یا دیگر اداروں میں رائج ہے وہ سب بھی انگریز کی اندھی تقلید ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔ ارشاد نبوی ہے۔ ”جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کے لیے تعظیماً کھڑے ہوں وہ اپنا ٹھکانا دوزخ بنالے۔“(صحیح الترغیب والترهیب، حدیث:۲۷۱)
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 946