حدثنا محمد بن الحكم، قال: اخبرنا النضر، قال: حدثنا إسرائيل، قال: اخبرنا ميسرة بن حبيب قال: اخبرني المنهال بن عمرو قال: حدثتني عائشة بنت طلحة، عن عائشة ام المؤمنين رضي الله عنها قالت: ما رايت احدا من الناس كان اشبه بالنبي صلى الله عليه وسلم كلاما ولا حديثا ولا جلسة من فاطمة، قالت: وكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا رآها قد اقبلت رحب بها، ثم قام إليها فقبلها، ثم اخذ بيدها فجاء بها حتى يجلسها في مكانه، وكانت إذا اتاها النبي صلى الله عليه وسلم رحبت به، ثم قامت إليه فقبلته، وانها دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي قبض فيه، فرحب وقبلها، واسر إليها، فبكت، ثم اسر إليها، فضحكت، فقلت للنساء: إن كنت لارى ان لهذه المراة فضلا على النساء، فإذا هي من النساء، بينما هي تبكي إذا هي تضحك، فسالتها: ما قال لك؟ قالت: إني إذا لبذرة، فلما قبض النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: اسر إلي فقال: ”إني ميت“، فبكيت، ثم اسر إلي فقال: ”إنك اول اهلي بي لحوقا“، فسررت بذلك واعجبني.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَكَمِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَيْسَرَةُ بْنُ حَبِيبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي الْمِنْهَالُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ كَانَ أَشْبَهَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلاَمًا وَلاَ حَدِيثًا وَلاَ جِلْسَةً مِنْ فَاطِمَةَ، قَالَتْ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَآهَا قَدْ أَقْبَلَتْ رَحَّبَ بِهَا، ثُمَّ قَامَ إِلَيْهَا فَقَبَّلَهَا، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِهَا فَجَاءَ بِهَا حَتَّى يُجْلِسَهَا فِي مَكَانِهِ، وَكَانَتْ إِذَا أَتَاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحَّبَتْ بِهِ، ثُمَّ قَامَتْ إِلَيْهِ فَقَبَّلَتْهُ، وأَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ، فَرَحَّبَ وَقَبَّلَهَا، وَأَسَرَّ إِلَيْهَا، فَبَكَتْ، ثُمَّ أَسَرَّ إِلَيْهَا، فَضَحِكَتْ، فَقُلْتُ لِلنِّسَاءِ: إِنْ كُنْتُ لَأَرَى أَنَّ لِهَذِهِ الْمَرْأَةِ فَضْلاً عَلَى النِّسَاءِ، فَإِذَا هِيَ مِنَ النِّسَاءِ، بَيْنَمَا هِيَ تَبْكِي إِذَا هِيَ تَضْحَكُ، فَسَأَلْتُهَا: مَا قَالَ لَكِ؟ قَالَتْ: إِنِّي إِذًا لَبَذِرَةٌ، فَلَمَّا قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: أَسَرَّ إِلَيَّ فَقَالَ: ”إِنِّي مَيِّتٌ“، فَبَكَيْتُ، ثُمَّ أَسَرَّ إِلَيَّ فَقَالَ: ”إِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِي بِي لُحُوقًا“، فَسُرِرْتُ بِذَلِكَ وَأَعْجَبَنِي.
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ میں نے لوگوں میں گفتگو، چال ڈھال اور اٹھنے بیٹھنے میں سیده فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ نہیں دیکھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کو آتا دیکھتے تو خوش آمدید کہتے، پھر ان کی طرف اٹھتے اور انہیں بوسہ دیتے، پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں لے آتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں جاتے تو وہ خوش آمدید کہتیں، پھر اٹھ کر آپ کی طرف بڑھتیں اور بوسہ دیتیں۔ ایک دفعہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں تشریف لائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خوش آمدید کہا، اور بوسہ دیا، اور ان کے ساتھ چپکے سے بات کی تو وہ رو پڑیں، پھر ان سے سرگوشی کی تو وہ ہنس پڑیں۔ میں نے عورتوں سے کہا: میں اس عورت کو دوسری عورتوں پر فضیلت والی دیکھ رہی ہوں۔ یہ عام عورتوں میں سے ایک عورت ہے، ابھی یہ رو رہی تھی اور ساتھ ہی ہنسنا شروع کر دیا۔ چنانچہ میں نے ان سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کیا فرمایا؟ انہوں نے کہا: تب تو میں راز فاش کرنے والی ہوئی (اگر آپ کو بتا دوں)، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو انہوں نے بتایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا تھا: ”میں (اس بیماری میں) فوت ہونے والا ہوں۔“ یہ سن کر میں رو پڑی۔ پھر دوسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرگوشی کی تو فرمایا: ”میرے گھر والوں میں سے سب سے پہلے تم مجھے ملو گی۔“ اس سے میں خوش ہوگئی اور یہ بات مجھے پسند آئی۔
تخریج الحدیث: «صحيح: جامع الترمذي، الأدب، ح: 3872 و أبوداؤد: 5217 و البخاري: 6285، 6286 و مسلم: 2450»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 947
فوائد ومسائل: (۱)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی سے ملنے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھ کر آگے بڑھتے ہوئے استقبال کرنا اور اسے مسند پر بٹھانا جائز ہے۔ (۲) والد اپنی بالغ اور شادی شدہ بیٹی کا بوسہ لے سکتا ہے، نیز معلوم ہوا کہ بیٹیوں کی عزت و تکریم کرنا اور ان سے پیار و محبت سے پیش آنا سنت نبوی ہے۔ (۳) اس حدیث سے سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی فضیلت معلوم ہوئی۔ (۴) انبیاء علیہم السلام کا خاصہ ہے کہ انہیں ان کی موت سے پہلے آگاہ کیا جاتا ہے اور ملک الموت کو ہدایت ہے کہ وہ باقاعدہ ان سے اجازت لے۔ (۵) اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں اور آپ کے لیے دنیاوی زندگی کا عقیدہ رکھنا قرآن و سنت کے مخالف ہے اور جہاں تک برزخ کی زندگی ہے تو وہ یقینی ہے لیکن اس جہاں کی حقیقت کا ادراک ہمیں نہیں ہے اور نہ ہماری عقل اس تک رسائی حاصل کرسکتی ہے۔ (۶) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سے صحابہ اور عزیز و اقارب کی موت کے بارے میں بتایا گیا جو آپ کا معجزہ ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 947