حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا عبد الاعلى بن عبد الاعلى القرشي، عن داود بن ابي هند، عن عامر، ان النعمان بن بشير حدثه، ان اباه انطلق به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يحمله فقال: يا رسول الله، إني اشهدك اني قد نحلت النعمان كذا وكذا، فقال: ”اكل ولدك نحلت؟“ قال: لا، قال: ”فاشهد غيري“، ثم قال: ”اليس يسرك ان يكونوا في البر سواء؟“ قال: بلى، قال: ”فلا إذا۔“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الْقُرَشِيُّ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ عَامِرٍ، أَنَّ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَاهُ انْطَلَقَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُهُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أُشْهِدُكَ أَنِّي قَدْ نَحَلْتُ النُّعْمَانَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ: ”أَكُلَّ وَلَدَكَ نَحَلْتَ؟“ قَالَ: لاَ، قَالَ: ”فَأَشْهِدْ غَيْرِي“، ثُمَّ قَالَ: ”أَلَيْسَ يَسُرُّكَ أَنْ يَكُونُوا فِي الْبِرِّ سَوَاءً؟“ قَالَ: بَلَى، قَالَ: ”فَلاَ إِذًا۔“
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد مجھے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے نعمان کو فلاں فلاں چیز دی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو نے اپنے سارے بچوں کو دیا ہے؟“ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا لو۔“ نیز فرمایا: ”کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ تیرے سارے بچے تیرے ساتھ برابر حسن سلوک کریں؟“ انہوں نے کہا: جی بالکل۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ایسے نہ کرو“(کہ کچھ کو دو اور باقیوں کو محروم رکھو۔)
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الهبة و فضلها و التحريض عليها، باب الهبة للولد: 2586 و مسلم: 1623 و أبوداؤد: 3542 و الترمذي: 1367 و ابن ماجه: 2376 و النسائي: 3674»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 93
فوائد ومسائل: (۱)اولاد کو ادب سکھانے اور ان سے حسن سلوک میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ان میں ہبہ کرتے اور عطیہ وغیرہ دیتے وقت برابری کی جائے۔ اس طرح انہیں دوسروں کے حقوق سے آگاہی ہوگی اور بھائیوں میں باہمی ہمدردی بھی ہوگی۔ اس کے برعکس اگر والدین نے انصاف نہ کیا تو اولاد کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جائے گی کہ انصاف کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے اور یوں وہ زندگی بھر انصاف نہ کرنے کے عادی ہو جائیں گے، نیز اولاد کے درمیان بغض و عداوت پیدا ہو جائے گی اور خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔ والدین اکثر و بیشتر اپنے عطیے میں حتی کہ وراثت میں بھی انصاف نہیں کرتے اور اولاد جہالت کی وجہ سے جہاں ایک دوسرے کی دشمن بن جاتی ہے وہاں والدین کے ادب کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا۔ اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح تم یہ چاہتے ہو کہ تمام اولاد تمہارے ساتھ حسن سلوک کرے اسی طرح تم بھی ان سے مساویانہ برتاؤ کرو۔ (۲) اگر ایک بیٹا یا بیٹی مالی طور پر کمزور ہے اور والدین اسے اس کے حق سے زیادہ دینا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ دوسری اولاد کو اعتماد میں لے کر یہ کام کریں تاکہ ان میں نا انصافي کا احساس پیدا نہ ہو۔ یعنی اگر کوئی بیٹا مقروض ہے، معذور ہے یا کسی اور حادثے کا شکار ہو گیا ہے تو اس کے تعاون کی گنجائش ہر صورت ہے۔ یاد رہے کہ یہ برابری عطیے اور ہبے میں ہے، باقی اولاد کے اخراجات ان کی تعلیم و تربیت کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ (نیل المآرب في تهذیب الشرح عمدۃ الطالب:۳؍۴۲۰) (۳) اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اولاد کے درمیان تقسیم کرانا چاہتا ہے تو اس کی کیا صورت ہوگی؟ کیا اس میں بھی اولاد میں برابری ضروری ہے یا وراثت کے اصولوں ﴿لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾(النسآء:۱۱)کے تحت تقسیم ہوگی؟ اس میں علماء کی دورائے ہیں:اہل علم کا ایک گروہ اس صورت میں لڑکے اور لڑکی کو برابر دنیا ضروری خیال کرتا ہے، ان کے نزدیک حدیث نعمان کے ظاہر کا یہ تقاضا ہے کہ تقسیم برابر ہو اور مذکر ومونث کو ایک جیسا ملے۔ امام احمد، بعض شوافع اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ تقسیم اصول وراثت کے مطابق ہوگی۔ کیونکہ یہ تقسیم خود اللہ تعالیٰ نے کی ہے اور یہی عدل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم غیر عادلانہ نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح وہ زندگی میں دینے کو وراثت پر قیاس کرتے ہیں۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ شرعی لحاظ سے وراثت کی تقسیم کا تعلق مورث کی موت کے ساتھ ہے۔ اور موت کا کسی کو کوئی علم نہیں۔ عین ممکن ہے جس کو ترکہ دیا جا رہا ہے وہ پہلے فوت ہو جائے تو وہ وارث نہیں ہو گا۔ جبکہ اس نے ترکہ لے کر دوسرے ورثاء کا حصہ کم دیا ہے۔ پھر آیۃ میراث میں ترکہ کا لفظ (ترك ترکن اور ترکتم)کئی دفعہ آیا ہے جس کا تعلق مورث کی موت کے ساتھ ہے اس لیے وراثت کی تقسیم مورث کی زندگی میں نہیں ہونی چاہیے۔ اختلاف کا خطرہ ہو تو نصیحت اور وصیت کرے۔ پھر بھی ورثاء کوئی غیر شرعی کام کریں گے تو وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔ میت اللہ کے ہاںذمہ دار نہیں ہو گی آدمی کو بعد والوں کو فکر کرنے کے بجائے اپنی آخرت کی فکر زیادہ ہونی چاہیے۔ میرا رجحان یہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کا موقف راجح ہے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد میں عدل کرنے کا حکم دیا ہے اور لڑکے کو لڑکی سے دو گنا دینا عدل کے منافي نہیں ہے۔ وراثت کے اگرچہ مستقل احکام و قوانین ہیں لیکن یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم عادلانہ ہے۔ بالخصوص جب والدین اپنی جائیداد زندگی میں اپنی اولاد کو دیں اور ان کا مقصد یہ ہو کہ ہم ان کا جو حق بنتا ہے وہ انہیں دے دیں تاکہ اولاد بعد میں جھگڑے نہ یا بیٹیوں کا حصہ خرد برد نہ کرے تو پھر ﴿لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ کی گنجائش ممکن ہے۔ زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد کی تقسیم اگرچہ ہبے اور عطیے کی صورت ہی بنتی ہے تاہم اس کا مقصد دور حاضر میں قطعاً ہدیہ نہیں ہوتا بلکہ نیت یہ ہوتی ہے کہ اولاد کو وراثت میں ملنے والا مال قبل از وقت تقسیم کر دیا جائے۔ هذا ما عندي واللّٰه أعلم بالصواب! (۴) اکثر والدین ان بچوں کو دوسروں کی نسبت زیادہ دیتے ہیں جو ان کی خدمت کرتے ہیں اور یوں بھی ہوتا ہے کہ نافرمان بچوں کو محروم کر دیا جاتا ہے۔ ایسا کرنا بھی محل نظر بلکہ ناجائز ہے۔ اولاد کا فرض ہے کہ والدین کی خدمت کریں، اب ایک بیٹا اپنا یہ فرض پورا کرتا ہے تو عنداللہ مأجور ہوگا اور خدمت نہ کرنے والوں سے باز پرس ہوگی۔ والدین کا فرض ہے کہ اولاد کے ساتھ عدل کریں۔ اگر وہ ایک کو ترجیح دیتے ہیں تو اپنے فرض سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ تاہم ایسا ممکن ہے کہ والد اس کی خدمت کے صلے میں اس کی تنخواہ مقرر کر دے، اس صورت میں اس کے لیے بطور اجیر بیٹے کو دینا جائز ہوگا۔ (۵) ہمارا خاندانی نظام اہل عرب کے خاندانی نظام سے قدرے مختلف ہے۔ شادی کے بعد عموماً بھائی اکٹھے رہتے ہیں۔ کچھ کام کرتے ہیں اور کچھ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور مشترک ہی گھر کا نظام چلتا ہے۔ اب ایک بیٹا بیس سال تک والدین کے ساتھ کام کرتا ہے جبکہ دوسرا بالکل اس میں شریک نہیں ہوتا اور جائیداد کی تقسیم کا وقت آجاتا ہے اور سب میں برابری کی سطح پر جائیداد تقسیم ہو جاتی ہے، یوں بیس سال کام کرنے والے بیٹے کی محنت محض والد کے ساتھ تعاون ہی سمجھا جاتا ہے۔ اور بھائیوں کے درمیان نفرت اور عداوت کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں والدین کو چاہیے کہ اگر وہ بچوں کو اپنے کاروبار میں شریک کرتے ہیں تو ان کی آمدن اور خرچ کا حساب کرکے باقی اولاد کو بھی اس سے خبردار کریں اور تحریری طور پر اس کی دستاویز بھی ضرور مہیا کریں تاکہ ان کے فوت ہونے کے بعد تقسیم وراثت میں جھگڑا پیدا نہ ہو اور کسی بیٹے پر زیادتی بھی نہ ہو۔ (۶) مفتی کو فتویٰ صادر کرنے سے پہلے سائل سے متعلقہ مسئلے کے متعلق پوچھ گچھ کرلینی چاہیے۔ (۷)”میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنالو“ اس کا یہ مطلب نہیںکہ دوسرے کسی کو گواہ بنالو تو ٹھیک ہے بلکہ ایسا آپ نے بطور تنبیہ اور ڈانٹ کے فرمایا۔ کیونکہ دوسری روایت میں ہے یہ درست نہیں بلکہ ظلم ہے اور میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔ (۸) اگر کوئی آدمی غلط وصیت کر جائے تو حاکم وقت یا عدالت کو حق حاصل ہے کہ وہ اسے کالعدم قرار دے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 93