حدثنا سعيد بن تليد، قال: حدثنا ابن وهب قال: اخبرني جابر بن إسماعيل، وغيره، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، انها كانت تقول: الشعر منه حسن ومنه قبيح، خذ بالحسن ودع القبيح، ولقد رويت من شعر كعب بن مالك اشعارا، منها القصيدة فيها اربعون بيتا، ودون ذلك.حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ تَلِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَغَيْرُهُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا كَانَتْ تَقُولُ: الشِّعْرُ مِنْهُ حَسَنٌ وَمِنْهُ قَبِيحٌ، خُذْ بِالْحَسَنِ وَدَعِ الْقَبِيحَ، وَلَقَدْ رَوَيْتُ مِنْ شِعْرِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَشْعَارًا، مِنْهَا الْقَصِيدَةُ فِيهَا أَرْبَعُونَ بَيْتًا، وَدُونَ ذَلِكَ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرمایا کرتی تھیں: شعروں میں اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔ اچھے شعر لے لو اور برے شعر چھوڑ دو۔ میں نے سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے شعروں میں سے کئی شعر روایت کیے ہیں۔ ان میں سے ایک قصیدہ ہے جس میں چالیس بیت ہیں اور اس کے علاوہ بھی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبويعلي: 4741 و الدارقطني: 4306 و البيهقي فى الكبرىٰ: 239/10 - انظر الصحيحة: 448»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 866
فوائد ومسائل: ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ شعر في نفسہ کلام ہی ہے جس کے ساتھ ما في الضمیر کا اظہار کیا جاتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ وہ مسجع ہوتا ہے۔ اگر اس میں شرعی خرابی نہ ہو تو اچھا ہوگا ورنہ برا۔ یہی حال کلام کا ہے، خواہ وہ کس قدر خوبصورت ہو اگر شریعت اور حق سے ہٹا ہوا ہو تو قبیح ہوگا۔ تاہم شعروں کی کثرت اور زیادتی مذموم ہے جس طرح گزشتہ اوراق میں گزر چکا ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 866