حدثنا محمد بن عبيد الله، قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن ابي بكر بن يحيى الانصاري، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يقل احدكم: يا خيبة الدهر، قال الله عز وجل: انا الدهر، ارسل الليل والنهار، فإذا شئت قبضتهما. ولا يقولن للعنب: الكرم، فإن الكرم الرجل المسلم.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ يَحْيَى الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”لَا يَقُلْ أَحَدُكُمْ: يَا خَيْبَةَ الدَّهْرِ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا الدَّهْرُ، أُرْسِلُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، فَإِذَا شِئْتُ قَبَضْتُهُمَا. وَلاَ يَقُولَنَّ لِلْعِنَبِ: الْكَرْمَ، فَإِنَّ الْكَرْمَ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی یوں نہ کہے: زمانے کا برا ہو۔ الله عز و جل کا فرمان ہے: میں ہی زمانہ ہوں۔ میں ہی رات اور دن کو بھیجتا ہوں، پھر جب چاہوں گا ان کو قبض کرلوں گا۔ اور انگور کو ہرگز کرم نہ کہو کیونکہ کرم مسلمان مرد ہوتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرج طرفه الأول أحمد: 8232، وهو فى الصحيحين كما سبق دون قوله ”أرسل الليل.....“ و أما طرفه الثاني فقد أخرجه مسلم: 2247 و أبوداؤد: 4974 و رواه البخاري: 6183، بلفظ قلب المومن»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 770
فوائد ومسائل: زمانے کی گردش اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے۔ دن اور رات اسی کے تابع ہیں۔ اس کی حکم عدولی نہیں کرتے۔ اس میں پیش آنے والے حوادث کو بھی اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے اس لیے زمانے کو برا بھلا کہنا خود باری تعالیٰ کو گالی دینے کے مترادف ہے۔ نیز کرم کا لفظ اہل عرب انگور کے درخت اور اس سے بننے والی شراب کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اسی طرح یہ جو دوسخا کے لیے بھی بولا جاتا تھا۔ آپ نے انگور کے لیے اس کے استعمال پر پابندی لگا دی تاکہ اشتباہ پیدا نہ ہو اور اس عظیم لفظ کا استعمال کسی اچھی چیز میں ہو۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 770