حدثنا ابن شيبة، قال: اخبرني ابن ابي الفديك، قال: حدثني عبد الله بن موهب، عن عمه عبيد الله، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ”ما من مؤمن ينصب وجهه إلى الله يساله مسالة، إلا اعطاه إياها، إما عجلها له في الدنيا، وإما ذخرها له في الآخرة ما لم يعجل“، قال: يا رسول الله، وما عجلته؟ قال: ”يقول: دعوت ودعوت، ولا اراه يستجاب لي.“حَدَّثَنَا ابْنُ شَيْبَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي الْفُدَيْكِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَوْهَبٍ، عَنْ عَمِّهِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”مَا مِنْ مُؤْمِنٍ يَنْصُبُ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ يَسْأَلُهُ مَسْأَلَةً، إِلا أَعْطَاهُ إِيَّاهَا، إِمَّا عَجَّلَهَا لَهُ فِي الدُّنْيَا، وَإِمَّا ذَخَرَهَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مَا لَمْ يَعْجَلْ“، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا عَجَلَتُهُ؟ قَالَ: ”يَقُولُ: دَعَوْتُ وَدَعَوْتُ، وَلا أُرَاهُ يُسْتَجَابُ لِي.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مومن اللہ کی طرف متوجہ ہو کر کوئی سوال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے عطا فرما دیتا ہے۔ یا تو دنیا ہی میں سوال کے مطابق عطا فرماتا ہے، یا آخرت میں اس کے لیے ذخیرہ کر دیتا ہے جب تک بندہ جلد بازی نہ کرے۔“ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جلد بازی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کہتا ہے: میں نے دعا کی، پھر دعا کی، لیکن دعا قبول ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 9785 و الحاكم: 497/1 و البيهقي فى الدعوات الكبير: 378»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 711
فوائد ومسائل: (۱)بندے کی سوچ اور اس کا علم نہایت محدود ہے۔ اس لیے وہ ظاہری اور سطحی فوائد کا سوچتا ہے۔ اگر اسے ظاہراً نفع نہ ملے تو وہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ وہ خسارے میں ہے۔ لیکن خالق کائنات بندے کے مفاد کو اس سے بہتر جانتا ہے کہ کون سی چیز ان کے لیے مناسب ہے اور کون سی غیر موزوں ہے اس لیے وہ اپنی حکمت کے مطابق دیتا ہے۔ (۲) جس طرح مریض آدمی کو اس کی چاہت کی ہر چیز نہیں دی جاتی اسی طرح مریض دنیا کو بھی اس کی ہر خواہش اللہ تعالیٰ نہیں دیتا بلکہ صرف وہی دیتا ہے جو اس کے لیے سود مند ہو، خصوصاً مسلمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اس لیے اس دنیا سے زیادہ اس کی آخرت کو بہتر فرماتا ہے۔ اس لیے بندے کو چاہیے کہ اپنی سمجھ کے مطابق کثرت سے مانگتا رہے اور کبھی یہ نہ کہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی بلکہ یہ امید رکھے کہ وہ حدیث میں مذکور چیزوں میں سے ایک چیز کو حاصل کر چکا ہے۔ (۳) یاد رہے کہ ان عوارض سے بچا جائے جو دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 711