حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا إسماعيل بن جعفر، عن حميد، عن انس، قال: قحط المطر عاما، فقام بعض المسلمين إلى النبي صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة، فقال: يا رسول الله، قحط المطر، واجدبت الارض، وهلك المال، فرفع يديه، وما يرى في السماء من سحابة، فمد يديه حتى رايت بياض إبطيه يستسقي الله، فما صلينا الجمعة حتى اهم الشاب القريب الدار الرجوع إلى اهله، فدامت جمعة، فلما كانت الجمعة التي تليها، فقال: يا رسول الله، تهدمت البيوت، واحتبس الركبان، فتبسم لسرعة ملال ابن آدم وقال بيده: ”اللهم حوالينا، ولا علينا“، فتكشطت عن المدينة.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَحَطَ الْمَطَرُ عَامًا، فَقَامَ بَعْضُ الْمُسْلِمِينَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَحَطَ الْمَطَرُ، وَأَجْدَبَتِ الأَرْضُ، وَهَلَكَ الْمَالُ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَمَا يُرَى فِي السَّمَاءِ مِنْ سَحَابَةٍ، فَمَدَّ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ يَسْتَسْقِي اللَّهَ، فَمَا صَلَّيْنَا الْجُمُعَةَ حَتَّى أَهَمَّ الشَّابُّ الْقَرِيبُ الدَّارِ الرُّجُوعَ إِلَى أَهْلِهِ، فَدَامَتْ جُمُعَةٌ، فَلَمَّا كَانَتِ الْجُمُعَةُ الَّتِي تَلِيهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَهَدَّمَتِ الْبُيُوتُ، وَاحْتَبَسَ الرُّكْبَانُ، فَتَبَسَّمَ لِسُرْعَةِ مَلالِ ابْنِ آدَمَ وَقَالَ بِيَدِهِ: ”اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا، وَلا عَلَيْنَا“، فَتَكَشَّطَتْ عَنِ الْمَدِينَةِ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سال بارش رک گئی اور قحط پڑ گیا تو جمعہ والے دن مسلمانوں میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! بارش رک گئی ہے، زمین خشک ہو گئی ہے، اور مال مویشی ہلاک ہو رہے ہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوران خطبہ ہی) اپنے ہاتھ اٹھائے، جبکہ اس وقت آسمان پر کوئی بادل دکھائی نہیں دیتا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو اس قدر اونچا اٹھایا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کی۔ ابھی ہم نے نماز جمعہ ادا نہیں کی تھی کہ بارش کی وجہ سے قریب گھر والے نوجوان کو گھر جانے کی فکر دامن گیر ہو گئی۔ پھر یہ بارش اگلے جمعہ تک مسلسل ہوتی رہی۔ اگلا جمعہ آیا تو اس شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! گھر منہدم ہو گئے، سوار رکے ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابن آدم کے جلدی اکتا جانے پر مسکرائے، اور ہاتھ اٹھا کر فرمایا: ”اے اللہ! ہمارے آس پاس بارش برسا، ہم پر نہیں۔“ تو مدینہ سے بادل چھٹ گئے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه النسائي: كتاب الاستسقاء: 1525 و معناه فى البخاري: 1013 و مسلم: 897 و أبى داؤد: 1174 و النسائي: 1515 - انظر الإرواء: 144/2، 145»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 612
فوائد ومسائل: (۱)اس سے معلوم ہوا کہ دوران خطبہ بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے جائز ہیں، خصوصاً بارش طلب کرنے کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا مسنون امر ہے۔ (۲) بارش اگر زیادہ ہو اور نقصان کا باعث بن رہی ہو تو اس کے لیے بھی دعا کی جاسکتی ہے لیکن اس کا ادب یہ ہے کہ بارش رکنے کی دعا کی بجائے یوں دعا کرنی چاہیے کہ باری تعالیٰ جہاں ضرورت ہے اسے وہاں لے جا، ایسا نہیں کہنا چاہیے کہ یا اللہ اسے روک دے کیونکہ رحمت کے روکنے کی التجا حسن ادب کے خلاف ہے۔ اور بارش بالکل روکنے کی دعا سے، اس کے ضرورت مند علاقے بارانِ رحمت سے محروم ہو جائیں گے جو کسی طور پر مناسب نہیں۔ (۳) اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ بھی ظاہر ہوا کہ آپ کی دعا سے فوراً بارش شروع ہوگئی اور پھر آپ کی التجا سے فوراً بادل بھی چھٹ گئے۔ (۴) اس سے معلوم ہوا کہ کسی بزرگ سے دعا کروانا مسنون امر ہے، خصوصاً آفات وغیرہ میں دعا کروائی جاسکتی ہے۔ (۵) جب کوئی دعا کرنے کی درخواست کرے تو اسے فوراً بھی پورا کیا جاسکتا ہے اور تاخیر سے بھی دعا کی جاسکتی ہے جیسا کہ دوسری روایات سے ثابت ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 612