حدثنا ابو معمر، قال: حدثنا عبد الوارث، قال: حدثنا عبد العزيز بن صهيب، عن انس بن مالك، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتعوذ، يقول: ”اللهم إني اعوذ بك من الكسل، واعوذ بك من الجبن، واعوذ بك من الهرم، واعوذ بك من البخل.“حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ، يَقُولُ: ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَرَمِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ.“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے ہوئے یوں دعا کرتے تھے: ”اے اللہ میں کاہلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں، بزدلی سے تیری پناہ کا طالب ہوں، اور میں پناہ مانگتا ہوں زیادہ بوڑھا ہونے سے، اور پناہ مانگتا ہوں بخل سے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الدعوات: 6371 و مسلم، كتاب الذكر و الدعاء: 50، 2706 و أبوداؤد: 1540 و الترمذي: 3585 و النسائي: 5452»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 615
فوائد ومسائل: اس سے معلوم ہوا کہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے مسنون ضرور ہیں لیکن ضروری ہرگز نہیں، خصوصاً جن موقعوں پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں اٹھائے جیسے صبح و شام کے اذکار میں تو وہاں نہ اٹھانا ہی سنت ہے۔ حدیث میں جن چار چیزوں سے پناہ مانگی گئی ہے یہ انسان کی شخصیت کو گہنا دیتی ہیں اور بندہ بے کار ہو جاتا ہے۔ سستی اور کاہلی منافقین کی صفت بتائی گئی ہے، بزدلی عظیم کارناموں کی انجام دہی میں رکاوٹ بنتی ہے اور ایسا بڑھاپا جس سے قویٰ انسانی جواب دے جائیں سوائے ذلت کے کچھ نہیں ہوتا اور بخل ہر حوالے سے مذموم ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک موقعہ پر فرمایا تھا:”ای دائٍ ادوء من البخل“ بخل سے بڑھ کر کون سی بیماری ہے؟ (بخاري:۴۳۸۳)
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 615