حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن قيس بن ابي حازم قال: دخلنا على خباب نعوده، وقد اكتوى سبع كيات، فقال: إن اصحابنا الذين سلفوا مضوا ولم تنقصهم الدنيا، وإنا اصبنا ما لا نجد له موضعا إلا التراب، ولولا ان النبي صلى الله عليه وسلم نهانا ان ندعو بالموت لدعوت به.حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى خَبَّابٍ نَعُودُهُ، وَقَدِ اكْتَوَى سَبْعَ كَيَّاتٍ، فَقَالَ: إِنَّ أَصْحَابَنَا الَّذِينَ سَلَفُوا مَضَوْا وَلَمْ تُنْقِصْهُمُ الدُّنْيَا، وَإِنَّا أَصَبْنَا مَا لاَ نَجِدُ لَهُ مَوْضِعًا إِلاَّ التُّرَابَ، وَلَوْلاَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانَا أَنْ نَدْعُوَ بِالْمَوْتِ لَدَعَوْتُ بِهِ.
حضرت قیس بن ابی حازم رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے ان کے ہاں گئے جبکہ انہوں نے اپنے جسم پر سات داغ لگوائے تھے۔ انہوں نے فرمایا: ہمارے جو دوست ہم سے پہلے تھے، وہ دنیا سے چلے گئے اور دنیا نے ان کے ثواب میں کوئی کمی نہ کی۔ اور ہم ہیں کہ ہمیں اس قدر وافر مال ملا ہے کہ مٹی کے سوا ہمیں اس کا کوئی مصرف نظر نہیں آتا۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں موت کی دعا کر لیتا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب المرضيٰ، باب تمنى المريض الموت: 5672 و مسلم: 2681، مختصرًا و الترمذي: 2483 و النسائي: 1823 و ابن ماجه: 4163 - انظر صحيح أبى داؤد: 2721»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 454
فوائد ومسائل: (۱)سیدنا خباب رضی اللہ عنہ پہلے پہل اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ انہوں نے اسلام کے لیے اس قدر تکلیفیں اٹھائیں کہ ان کی کمر پر گوشت نہیں تھا۔ دشمن کے کوئلوں پر لٹانے کی وجہ سے سارا گوشت جل گیا تھا۔ آخر عمر میں شدید بیمار ہوگئے اور پیٹ میں بہت سے داغ لگوانے پڑے۔ (۲) قرون اولیٰ میں مسلمانوں کا طریقہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کو وعظ و نصیحت کرتے تھے۔ سیدنا خباب رضی اللہ عنہ نے تیمار داری کے لیے آنے والوں کو دنیا سے بے رغبتی کی نصیحت کی اور تنبیہ کی کہ عمارتوں میں مقابلہ بازی سے اجتناب کرو اور دنیا پر فریفتہ ہونے کی بجائے آخرت کی طرف توجہ دو۔ (۳) شدید بیماری یا مشکلات کی وجہ سے موت کی دعا کرنا ناجائز ہے، تاہم دل میں تمنا پیدا ہونا دوسری چیز ہے جس پر مواخذہ نہیں۔ اگر موت یقینی ہو تو پھر اللہ سے ملاقات کا شوق پیدا ہونا ایمان کامل کی علامت ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 454