حدثنا محمد بن سلام، قال: حدثنا عبدة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إني لاعرف غضبك ورضاك“، قالت: قلت: وكيف تعرف ذلك يا رسول الله؟ قال: ”إنك إذا كنت راضية قلت: بلى، ورب محمد، وإذا كنت ساخطة قلت: لا، ورب إبراهيم“، قالت: قلت: اجل، لست اهاجر إلا اسمك.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”إِنِّي لَأَعْرِفُ غَضَبَكِ وَرِضَاكِ“، قَالَتْ: قُلْتُ: وَكَيْفَ تَعْرِفُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: ”إِنَّكِ إِذَا كُنْتِ رَاضِيَةً قُلْتِ: بَلَى، وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، وَإِذَا كُنْتِ سَاخِطَةً قُلْتِ: لاَ، وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ“، قَالَتْ: قُلْتُ: أَجَلْ، لَسْتُ أُهَاجِرُ إِلا اسْمَكَ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے غصے کو اور تمہاری رضا مندی کو پہچانتا ہوں۔“ وہ فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم راضی ہوتی ہو تو کہتی ہو: کیوں نہیں! رب محمد کی قسم۔ اور جب تم ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو: نہیں! رب ابراہیم کی قسم؟“ وہ کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: اسی طرح ہے لیکن میں صرف آپ کا نام ہی ترک کرتی ہوں۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6078 و مسلم: 2439 - انظر الصحيحة: 3302»
أعرف غضبك ورضاك قالت قلت وكيف تعرف ذاك يا رسول الله قال إنك إذا كنت راضية قلت بلى ورب محمد وإذا كنت ساخطة قلت لا ورب إبراهيم قالت قلت أجل لست أهاجر إلا اسمك
أعلم إذا كنت عني راضية وإذا كنت علي غضبى قالت فقلت من أين تعرف ذلك فقال أما إذا كنت عني راضية فإنك تقولين لا ورب محمد وإذا كنت علي غضبى قلت لا ورب إبراهيم قالت قلت أجل والله يا رسول الله ما أهجر إلا اسمك
أعلم إذا كنت عني راضية وإذا كنت علي غضبى قالت فقلت ومن أين تعرف ذلك قال أما إذا كنت عني راضية فإنك تقولين لا ورب محمد وإذا كنت غضبى قلت لا ورب إبراهيم قالت قلت أجل والله يا رسول الله ما أهجر إلا اسمك
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 403
فوائد ومسائل: (۱)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ غصہ عورتوں کی اس غیرت میں سے ہے جس کے بارے میں انہیں معاف کر دیا کیا گیا ہے۔ ورنہ حضرت عائشہ بغض کی وجہ سے غصہ نہیں کرتی تھیں کیونکہ وہ تو بہت بڑا گناہ ہے۔ اس کی وضاحت انہوں نے خود فرما دی کہ اللہ کے رسول صرف آپ نام لینا ہی چھوڑتی ہوں، آپ کی محبت میرے دل میں تو پیوست ہوتی ہے۔ (۲) خاوند کو بیوی کی نفسیات کا علم ہونا چاہیے اور اس کے رویے کے تغیر و تبدل کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے اور اس کے ساتھ اسی کے مطابق معاملہ کرنا چاہیے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 403