حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال: حدثنا هشام، قال: حدثنا قتادة، عن انس، ان رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا نبي الله، متى الساعة؟ فقال: ”وما اعددت لها؟“ قال: ما اعددت من كبير، إلا اني احب الله ورسوله، فقال: ”المرء مع من احب.“ قال انس: فما رايت المسلمين فرحوا بعد الإسلام اشد مما فرحوا يومئذ.حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ، مَتَى السَّاعَةُ؟ فَقَالَ: ”وَمَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟“ قَالَ: مَا أَعْدَدْتُ مِنْ كَبِيرٍ، إِلاَّ أَنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَقَالَ: ”الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ.“ قَالَ أَنَسٌ: فَمَا رَأَيْتُ الْمُسْلِمِيْنَ فَرِحُوْا بَعْدَ الْإِسْلَامِ أَشَدَّ مِمَّا فَرِحُوْا يَوْمَئِذٍ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟“ اس نے عرض کیا: میں نے اس کے لیے کوئی بڑی تیاری نہیں کی، البتہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اسلام کے بعد میں نے مسلمانوں کو اس دن سے زیادہ خوش نہیں دیکھا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6167 و مسلم: 2639 و أبوداؤد: 5127 و الترمذي: 2385»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 352
فوائد ومسائل: (۱)نیکی اور نیک لوگوں کی محبت دنیا و آخرت میں مفید ہے۔ آدمی جس سے محبت رکھتا ہے روز قیامت اس کا حشر بھی انہی کے ساتھ ہوگا۔ صحابی رسول نے اس کے وقت کے متعلق سوال کیا، جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، تو آپ نے اس کی صحیح راہنمائی فرمائی کہ اصل چیز صحیح عقیدہ اور نیک اعمال ہیں جن کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور یہی انسان کو فائدہ دیں گے۔ (۲) صحیح بخاری میں ہے کہ اس صحابی نے عرض کیا:اللہ کے رسول! میں بہت زیادہ (نفلی)روزوں اور نماز کا انتظام نہیں کرتا، تاہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے۔ (۳) محبت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان محبت کا دعویٰ کرے اور اللہ اور اس کے رسول کی بغاوت بھی کرتا رہے۔ اس صحابی کے قول کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں نماز روزہ کا اہتمام نہیں کرتا بلکہ مقصد یہ تھا نوافل وغیرہ کا زیادہ اہتمام نہیں کرتا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 352