حدثنا المكي، قال: حدثنا حنظلة، عن سالم بن عبد الله قال: سمعت عبد الله بن عمر قال: وجد عمر حلة إستبرق، فاتى بها النبي صلى الله عليه وسلم فقال: اشتر هذه، والبسها عند الجمعة، او حين تقدم عليك الوفود، فقال عليه الصلاة والسلام: ”إنما يلبسها من لا خلاق له في الآخرة“، واتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بحلل، فارسل إلى عمر بحلة، وإلى اسامة بحلة، وإلى علي بحلة، فقال عمر: يا رسول الله، ارسلت بها إلي، لقد سمعتك تقول فيها ما قلت؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ”تبيعها، او تقضي بها حاجتك.“حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ: وَجَدَ عُمَرُ حُلَّةَ إِسْتَبْرَقٍ، فَأَتَى بِهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: اشْتَرِ هَذِهِ، وَالْبَسْهَا عِنْدَ الْجُمُعَةِ، أَوْ حِينَ تَقْدِمُ عَلَيْكَ الْوُفُودُ، فَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ: ”إِنَّمَا يَلْبَسُهَا مَنْ لاَ خَلاَقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ“، وَأُتِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحُلَلٍ، فَأَرْسَلَ إِلَى عُمَرَ بِحُلَّةٍ، وَإِلَى أُسَامَةَ بِحُلَّةٍ، وَإِلَى عَلِيٍّ بِحُلَّةٍ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَرْسَلْتَ بِهَا إِلَيَّ، لَقَدْ سَمِعْتُكَ تَقُولُ فِيهَا مَا قُلْتَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”تَبِيعُهَا، أَوْ تَقْضِي بِهَا حَاجَتَكَ.“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے موٹے ریشم کا ایک جبہ (فروخت ہوتے) دیکھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے اور عرض کیا: (اللہ کے رسول!) آپ یہ جبہ خرید لیں اور جمعہ کے دن اور (ملاقاتی) وفود کی آمد کے موقع پر زیب تن فرما لیا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یہ تو صرف وہ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ جبے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو، ایک سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اور ایک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے یہ مجھے بھیج دیا ہے حالانکہ آپ نے ایسے جبے کے بارے میں جو فرمایا ہے میں وہ آپ سے سن چکا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے بیچ دو یا اس کے ذریعے اپنی کوئی ضرورت پوری کر لو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الجمعة، باب يلبس أحسن ما يجد: 886، 6081 و مسلم: 2068 و النسائي: 5300 و أبوداؤد: 1076»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 349
فوائد ومسائل: (۱)اس میں ملاقات کے وقت عمدہ لباس پہننے کے استحباب کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ خالص ریشم مردوں کے لیے حرام ہے، تاہم اسے بیچنا جائز ہے۔ (۲) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہ جبہ اپنے ایک مشرک بھائی کو بھجوا دیا جو مکہ میں رہتا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کافر براہ راست فروعات کے مکلف نہیں ہیں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 349