حدثنا عبد الله بن محمد، قال: حدثنا ابو عامر، قال: حدثنا عبد الجليل بن عطية، عن شهر، عن ام الدرداء قالت: قام ابو الدرداء ليلة يصلي، فجعل يبكي ويقول: اللهم احسنت خلقي فحسن خلقي، حتى اصبح، قلت: يا ابا الدرداء، ما كان دعاؤك منذ الليلة إلا في حسن الخلق؟ فقال: يا ام الدرداء، إن العبد المسلم يحسن خلقه، حتى يدخله حسن خلقه الجنة، ويسيء خلقه، حتى يدخله سوء خلقه النار، والعبد المسلم يغفر له وهو نائم، قلت: يا ابا الدرداء، كيف يغفر له وهو نائم؟ قال: يقوم اخوه من الليل فيجتهد فيدعو الله عز وجل فيستجيب له، ويدعو لاخيه فيستجيب له فيه.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَلِيلِ بْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ شَهْرٍ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ قَالَتْ: قَامَ أَبُو الدَّرْدَاءِ لَيْلَةً يُصَلِّي، فَجَعَلَ يَبْكِي وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ أَحْسَنْتَ خَلْقِي فَحَسِّنْ خُلُقِي، حَتَّى أَصْبَحَ، قُلْتُ: يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ، مَا كَانَ دُعَاؤُكَ مُنْذُ اللَّيْلَةِ إِلاَّ فِي حُسْنِ الْخُلُقِ؟ فَقَالَ: يَا أُمَّ الدَّرْدَاءِ، إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ يَحْسُنُ خُلُقُهُ، حَتَّى يُدْخِلَهُ حُسْنُ خُلُقِهِ الْجَنَّةَ، وَيَسِيءُ خُلُقُهُ، حَتَّى يُدْخِلَهُ سُوءُ خُلُقِهِ النَّارَ، وَالْعَبْدُ الْمُسْلِمُ يُغْفَرُ لَهُ وَهُوَ نَائِمٌ، قُلْتُ: يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ، كَيْفَ يُغْفَرُ لَهُ وَهُوَ نَائِمٌ؟ قَالَ: يَقُومُ أَخُوهُ مِنَ اللَّيْلِ فَيَجْتَهِدُ فَيَدْعُو اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَيَسْتَجِيبُ لَهُ، وَيَدْعُو لأَخِيهِ فَيَسْتَجِيبُ لَهُ فِيهِ.
سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے رات کو اٹھ کر نماز پڑھی تو رونے لگے اور کہہ رہے تھے: اے اللہ تو نے میری شکل و صورت اچھی بنائی ہے تو اخلاق بھی اچھا کر دے۔ صبح تک یہی دعا کرتے رہے۔ میں نے عرض کیا: اے ابودرداء! آپ رات بھر حسن اخلاق ہی کی دعا کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ام درداء! مسلمان بندے کا اخلاق اگر اچھا ہو گا تو اس کا اخلاق اسے جنت میں داخل کر دے گا، اور اگر اخلاق برا ہو گا تو وہ اسے آگ میں داخل کرے گا۔ اور مسلمان بندہ سویا ہوتا ہے تو اسے معاف کر دیا جاتا ہے۔ میں نے کہا: اے ابودرداء! سوئے ہوئے کو کیسے معاف کر دیا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا: اس کا بھائی رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے، اور وہ اپنے بھائی کے لیے دعا کرتا ہے تو اس کی اپنے بھائی کے بارے میں کی گئی دعا بھی قبول ہوتی ہے۔
تخریج الحدیث: «ضعيف الإسناد لضعف شهر لكن الدعاء بتحسين الخلق صحيح: الإرواء: 74 - رواه أحمد فى الزهد: 753 و البيهقي فى الشعب: 62/11 و ابن عساكر فى تاريخه: 47، 156»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد لضعف شهر، لكن الدعاء بتحسين الخلق صحيح
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 290
فوائد ومسائل: اس روایت کی سند شہر بن حوشب کی وجہ سے ضعیف ہے، تاہم حسن اخلاق کی دعا کرنا صحیح ہے جیسا کہ ارواء الغلیل میں ہے۔ (الارواء، حدیث:۷۴)اسی طرح دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ کسی مسلمان کے لیے اس کی عدم موجودگی میں کی گئی دعا جلدی قبول ہوتی ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 290