حدثنا آدم بن ابي إياس، قال: حدثنا شعبة قال: حدثني سعيد بن ابي بردة بن ابي موسى، عن ابيه، عن جده قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”على كل مسلم صدقة“، قالوا: فإن لم يجد؟ قال: ”فيعتمل بيديه، فينفع نفسه، ويتصدق“، قالوا: فإن لم يستطع، او لم يفعل؟ قال: ”فيعين ذا الحاجة الملهوف“، قالوا: فإن لم يفعل؟ قال: ”فيامر بالخير، او يامر بالمعروف“، قالوا: فإن لم يفعل؟ قال: ”فيمسك عن الشر، فإنه له صدقة.“حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ“، قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَجِدْ؟ قَالَ: ”فَيَعْتَمِلُ بِيَدَيْهِ، فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ، وَيَتَصَدَّقُ“، قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ، أَوْ لَمْ يَفْعَلْ؟ قَالَ: ”فَيُعِينُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ“، قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ؟ قَالَ: ”فَيَأْمُرُ بِالْخَيْرِ، أَوْ يَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ“، قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ؟ قَالَ: ”فَيُمْسِكُ عَنِ الشَّرِّ، فَإِنَّهُ لَهُ صَدَقَةٌ.“
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہرمسلمان کے ذمے (ہر روز) صدقہ ہے۔“ انہوں نے کہا: اگر وہ نہ پائے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے دست و بازو سے محنت کر کے کمائے، پھر اس سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور صدقہ بھی کرے۔“ انہوں نے کہا: اگر وہ اس کی طاقت نہ رکھے یا ایسا نہ کر سکتا ہو تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ مجبور اور بے بس کی مدد کرے۔“ انہوں نے کہا: اگر وہ یہ کرنے سے بھی عاجز ہو تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ نیکی اور اچھے کام کا حکم دے۔“ انہوں نے عرض کیا: اگر وہ یہ بھی نہ کر سکے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگوں کو تکلیف پہنچانے سے باز رہے یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب كل معروف صدقة: 6022 و مسلم: 1008 و النسائي: 2538 - الصحيحة: 573»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 225
فوائد ومسائل: (۱)بعض روایات میں ہے کہ ہر جوڑ پر صدقہ ہے اور اگر کوئی شخص سورج نکلنے کے بعد دو رکعت ادا کرلیتا ہے تو یہ صدقہ ادا ہو جاتا ہے۔ (سنن أبي داؤد، الصلاة، حدیث:۱۲۸۶) لیکن جو شخص صدقہ کرنے کی طاقت رکھتا ہو اسے مال سے صدقہ کرنا چاہیے اور اگر طاقت نہ ہو تو سبحان اللہ کہنا بھی صدقہ ہے اور کسی کی مدد کرنا بھی صدقہ ہے، یعنی امور خیر تمام صدقے کا درجہ رکھتے ہیں۔ (صحیح البخاري، الجهاد، حدیث:۲۸۹۱) (۲) محنت کرنا دست سوال دراز کرنے سے ہزارہا درجہ بہتر ہے اور انسان کو اپنی کمائی سے صدقہ و خیرات ضرور کرنا چاہیے خواہ وہ مزدور ہی ہو۔ (۳) مجبور اور بے بس کی مدد کرنا اور بجھے ہوئے چولہے کو جلانا بہت بڑی نیکی ہے جیسا گزشتہ فوائد میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ عصر حاضر میں کئی لوگ زندگی سے مایوس ہوکر خود کشی کر رہے ہیں، ایسے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل ثروت انہیں اپنے مالوں میں شریک کرکے اللہ کے دیے ہوئے مال سے انہیں بھی فائدہ پہنچائیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو نیکی کا کوئی بھی راستہ اختیار کرلیا جائے ورنہ کم از کم لوگوں کو ایذا پہنچانے سے باز رہا جائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے گناہ اپنے سر لے کر جہنم رسید ہو جائے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 225