حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، عن قتادة، عن ابي السوار العدوي قال: سمعت عمران بن حصين قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”الحياء لا ياتي إلا بخير“، فقال بشير بن كعب: مكتوب في الحكمة: إن من الحياء وقارا، إن من الحياء سكينة، فقال له عمران: احدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وتحدثني عن صحيفتك.حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي السَّوَّارِ الْعَدَوِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”الْحَيَاءُ لاَ يَأْتِي إِلاَّ بِخَيْرٍ“، فَقَالَ بُشَيْرُ بْنُ كَعْبٍ: مَكْتُوبٌ فِي الْحِكْمَةِ: إِنَّ مِنَ الْحَيَاءِ وَقَارًا، إِنَّ مِنَ الْحَيَاءِ سَكِينَةً، فَقَالَ لَهُ عِمْرَانُ: أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُحَدِّثُنِي عَنْ صَحِيفَتِكَ.
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حیا خیر ہی لاتی ہے۔“ بشیر بن کعب نے کہا: حکمت میں لکھا ہے کہ حیا سے سنجیدگی آتی ہے اور اطمینان بھی حیا سے ہے۔ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سناتا ہوں اور تم مجھے اپنے صحیفے کی با تیں بتاتے ہو۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6117 و مسلم: 37 و أبوداؤد: 4796»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1312
فوائد ومسائل: (۱)حیا جس قدر زیادہ ہوگی اسی قدر بندے میں خیر زیادہ ہوگی۔ ہر چیز کی زیادتی مضر ہوسکتی ہے لیکن حیا جتنی زیادہ ہو اتنی ہی بہتر ہے۔ (۲) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلے کسی شخص کے قول کی کوئی حیثیت نہیں خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اور اس کی بات کتنی خوبصورت کیوں نہ ہو۔ صحیح مسلم میں ہے کہ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ بشیر بن کعب کی بات سن کر شدید غصے میں آگئے یہاں تک کہ ان کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ (۳) جو لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح اور واضح فرمان کے مقابلے میں بزرگوں کی باتیں پیش کرتے ہیں انہیں اپنے ایمان کا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1312