حدثنا يحيى بن صالح، قال: حدثنا إسحاق بن يحيى الكلبي، قال: حدثنا الزهري قال: اخبرني عبد الله بن كعب بن مالك الانصاري، قال: وكان كعب بن مالك احد الثلاثة الذين تيب عليهم، ان ابن عباس اخبره، ان علي بن ابي طالب رضي الله عنه خرج من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم في وجعه الذي توفي فيه، فقال الناس: يا ابا الحسن، كيف اصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: اصبح بحمد الله بارئا، قال: فاخذ عباس بن عبد المطلب بيده، فقال: ارايتك؟ فانت والله بعد ثلاث عبد العصا، وإني والله لارى رسول الله صلى الله عليه وسلم سوف يتوفى في مرضه هذا، إني اعرف وجوه بني عبد المطلب عند الموت، فاذهب بنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فلنساله: فيمن هذا الامر؟ فإن كان فينا علمنا ذلك، وإن كان في غيرنا كلمناه فاوصى بنا، فقال علي: إنا والله إن سالناه فمنعناها لا يعطيناها الناس بعده ابدا، وإني والله لا اسالها رسول الله صلى الله عليه وسلم ابدا.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى الْكَلْبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: وَكَانَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ أَحَدَ الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَرَجَ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، فَقَالَ النَّاسُ: يَا أَبَا الْحَسَنِ، كَيْفَ أَصْبَحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: أَصْبَحَ بِحَمْدِ اللهِ بَارِئًا، قَالَ: فَأَخَذَ عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بِيَدِهِ، فَقَالَ: أَرَأَيْتُكَ؟ فَأَنْتَ وَاللَّهِ بَعْدَ ثَلاَثٍ عَبْدُ الْعَصَا، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَرَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَوْفَ يُتَوَفَّى فِي مَرَضِهِ هَذَا، إِنِّي أَعْرِفُ وُجُوهَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عِنْدَ الْمَوْتِ، فَاذْهَبْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْنَسْأَلْهُ: فِيمَنْ هَذَا الأَمْرُ؟ فَإِنْ كَانَ فِينَا عَلِمْنَا ذَلِكَ، وَإِنْ كَانَ فِي غَيْرِنَا كَلَّمْنَاهُ فَأَوْصَى بِنَا، فَقَالَ عَلِيٌّ: إِنَّا وَاللَّهِ إِنْ سَأَلْنَاهُ فَمَنَعَنَاهَا لَا يُعْطِينَاهَا النَّاسُ بَعْدَهُ أَبَدًا، وَإِنِّي وَاللَّهِ لاَ أَسْأَلُهَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَدًا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیماری میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے باہر آئے تو لوگوں نے پوچھا: ابوالحسن! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس حال میں صبح کی ہے؟ انہوں نے کہا: الحمد للہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ان کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے گئے اور کہا: کیا تمہیں خبر ہے! اللہ کی قسم تم تین دن بعد لاٹھی کے بندے بن جاؤ گے، یعنی دوسروں کے ماتحت ہوگے۔ اور میں اللہ کی قسم دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض میں وفات پا جائیں گے، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ موت کے وقت بنو عبدالمطلب کے چہرے کیسے ہوتے ہیں۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خلافت کے بارے پوچھ لیں۔ اگر ہم میں سے کوئی ہوگا تو ہم اسے جان لیں گے، اور اگر ہمارے علاوہ کوئی اور ہوگا تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کریں کہ آپ ہمارے بارے میں وصیت فرما دیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: الله کی قسم! اگر ہم نے سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع کر دیا تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کبھی ہمیں اقتدار نہیں دیں گے۔ اللہ کی قسم! میں اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی سوال نہیں کروں گا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب المغازي: 4447»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1130
فوائد ومسائل: (۱)کسی کی خیریت دریافت کرنا مسنون ہے اور اس کے لیے یہ انداز اختیارکرنا کہ تم نے صبح کس حال میں کی؟ جائز ہے۔ مریض اگر حقیقت حال بتائے گا تو یہ شکوہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح کسی دوسرے شخص سے بھی بیمار کا حال دریافت کیا جاسکتا ہے۔ (۲) اس حدیث سے شیعہ کے مذعومہ عقیدہ خلیفہ بلافصل کی تردید ہوتی ہے۔ اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بلا فصل ہوتے تو لوگوں کے سامنے ضرور اس کا اظہار کرتے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1130