حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا مخلد، قال: اخبرنا ابن جريج قال: اخبرني ابو الزبير انه سمع جابرا يقول: سلم ناس من اليهود على النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: السام عليكم، قال: ”وعليكم“، فقالت عائشة رضي الله عنها وغضبت: الم تسمع ما قالوا؟ قال: ”بلى قد سمعت فرددت عليهم، نجاب عليهم، ولا يجابون فينا.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَخْلَدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا يَقُولُ: سَلَّمَ نَاسٌ مِنَ الْيَهُودِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: السَّامُ عَلَيْكُمْ، قَالَ: ”وَعَلَيْكُمْ“، فَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَغَضِبَتْ: أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا؟ قَالَ: ”بَلَى قَدْ سَمِعْتُ فَرَدَدْتُ عَلَيْهِمْ، نُجَابُ عَلَيْهِمْ، وَلا يُجَابُونَ فِينَا.“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ یہودیوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو کہا: السام علیکم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وعلیکم۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بہت غصہ آیا تو انہوں نے کہا: (اللہ کے رسول!) آپ نے سنا نہیں جو انہوں نے کہا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں، میں نے سنا ہے اور وہ الفاظ انہی پر لوٹا دیے ہیں۔ ہماری دعا ان کے خلاف قبول ہوتی ہے، اور ان کی ہمارے خلاف کی گئی دعا قبول نہیں ہوتی۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب السلام: 2166»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1110
فوائد ومسائل: کافر السام علیکم کہیں یا السلام علیکم، ان کے جواب میں وعلیکم پر اکتفا کرنا چاہیے۔ مزید تفصیل میں جانے کی اور الجھنے کی ضرورت نہیں۔ اگر کسی علاقے میں پہل کرنے کی ضرورت ہو تو سلام کے بجائے اشارے اور دیگر کلمات پر اکتفا کرنا چاہیے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1110