حدثنا مالك بن إسماعيل، قال: حدثنا المطلب بن زياد، قال: حدثنا ابو بكر بن عبد الله الاصبهاني، عن محمد بن مالك بن المنتصر، عن انس بن مالك: إن ابواب النبي صلى الله عليه وسلم كانت تقرع بالاظافير.حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُطَّلِبُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللهِ الأَصْبَهَانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَالِكِ بْنِ الْمُنْتَصِرِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: إِنَّ أَبْوَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ تُقْرَعُ بِالأظَافِيرِ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے ناخنوں سے کھٹکھٹائے جاتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري فى التاريخ الكبير: 228/1 و البيهقي فى شعب الإيمان: 1530 و المزي فى تهذيب الكمال: 350/26 - أنظر الصحيحة: 2092»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1080
فوائد ومسائل: (۱)دروازے کھٹکھٹانے کا مقصد گھر والوں کو مطلع کرنا ہے نہ کہ انہیں ڈرانا اور بدکانا ہے۔ اس لیے دروازہ آہستہ سے کھٹکھٹانا چاہیے۔ بیل بجائے جانا یا زور زور سے دروازے پر دستک دینا خلاف ادب ہے، خصوصاً کسی معزز شخصیت کے ادب و احترام کا تقاضا ہے کہ دروازہ زور سے نہ پیٹا جائے۔ (۲) دروازہ کھٹکھٹانا بھی اجازت لینے کی طرح ہے اس لیے تین بار دستک دینے کے بعد انتظار کرنا چاہیے۔ جواب نہ ملے تو واپس چلے جانا چاہیے۔ (۳) گھر کی حویلی بڑی اور گیٹ رہائش سے دور ہو تو قدرے زور سے دستک دینے میں کوئی حرج نہیں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1080