حدثنا محمد بن عبد العزيز، قال: حدثنا بقية قال: حدثني محمد بن عبد الرحمن اليحصبي قال: حدثني عبد الله بن بسر، صاحب النبي صلى الله عليه وسلم، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا اتى بابا يريد ان يستاذن لم يستقبله، جاء يمينا وشمالا، فإن اذن له وإلا انصرف.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْيَحْصِبِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ بُسْرٍ، صَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَتَى بَابًا يُرِيدُ أَنْ يَسْتَأْذِنَ لَمْ يَسْتَقْبِلْهُ، جَاءَ يَمِينًا وَشِمَالاً، فَإِنْ أُذِنَ لَهُ وَإِلا انْصَرَفَ.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے دروازے پر اس سے اجازت لینے کے لیے تشریف لاتے تو سامنے کھڑے نہ ہوتے بلکہ دائیں، بائیں کھڑے ہوتے۔ اگر اجازت مل جاتی تو ٹھیک ورنہ واپس تشریف لے جاتے۔
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1078
فوائد ومسائل: اجازت لینے کا مقصد یہ ہے کہ گھر والوں کی بے پردگی نہ ہو اور اپنی جو حالت کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتے وہ چھپی رہے۔ اگر دروازے کے سامنے کھڑا رہا تو اندر نظر پڑنے کا خدشہ ہے۔ اس لیے آداب کا تقاضا یہ ہے کہ ایک طرف ہوکر اجازت طلب کی جائے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1078