حدثنا مطر، قال: حدثنا روح بن عبادة، قال: حدثنا بسطام قال: سمعت معاوية بن قرة قال: قال لي ابي: يا بني، إذا مر بك الرجل فقال: السلام عليكم، فلا تقل: وعليك، كانك تخصه بذلك وحده، فإنه ليس وحده، ولكن قل: السلام عليكم.حَدَّثَنَا مَطَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِسْطَامٌ قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ قُرَّةَ قَالَ: قَالَ لِي أَبِي: يَا بُنَيَّ، إِذَا مَرَّ بِكَ الرَّجُلُ فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، فَلاَ تَقُلْ: وَعَلَيْكَ، كَأَنَّكَ تَخُصُّهُ بِذَلِكَ وَحْدَهُ، فَإِنَّهُ لَيْسَ وَحْدَهُ، وَلَكِنْ قُلِ: السَّلامُ عَلَيْكُمْ.
حضرت معاویہ بن قرہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ مجھ سے میرے والد نے کہا: اے میرے بیٹے! جب تیرے پاس سے کوئی آدمی گزرے اور السلام علیکم کہے، تو تم وعلیک نہ کہنا کہ گویا تم اسی کو خاص کر رہے ہو، بلکہ یوں کہو: السلام علیکم۔
تخریج الحدیث: «صحيح: الضعيفة للألباني، تحت حديث: 5753»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1037
فوائد ومسائل: (۱)مذکورہ بالا احادیث میں سلام کہتے اور اس کا جواب دینے کے مختلف طریقے بیان ہوئے ہیں۔ مذکورہ بالا تمام الفاظ کے ساتھ سلام کہا جاسکتا ہے۔ اگرچہ بیشتر احادیث میں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ (۲) کسی کو غائبانہ سلام کہنے اور اس کا جواب دینے کا طریقہ بھی سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں بیان ہوا ہے۔ (۳) اس سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ سیدنا جبرائیل علیہ السلام نے انہیں سلام کہا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1037