حدثنا يحيى بن سليمان قال: حدثني ابن وهب قال: اخبرني حيوة، عن عقبة بن مسلم، عن عبد الله بن عمرو قال: بينما نحن جلوس عند النبي صلى الله عليه وسلم في ظل شجرة بين مكة والمدينة، إذ جاء اعرابي من اجلف الناس واشدهم فقال: السلام عليكم، فقالوا: ”وعليكم.“حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ظِلِّ شَجَرَةٍ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، إِذْ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ مِنَ أَجْلَفِ النَّاسِ وَأَشَدِّهِمْ فَقَالَ: السَّلامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالُوا: ”وَعَلَيْكُمُ.“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک درخت کے سائے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک بد اخلاق اور سخت مزاج بدوی آیا تو اس نے کہا: السلام علیکم! انہوں نے کہا: ”وعلیکم۔“
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1032
فوائد ومسائل: کم از کم سلام السلام علیکم اور کم از کم جواب وعلیکم السلام یا وعلیکم ہے۔ تاہم السلام علیکم ورحمۃ اللہ یا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے ساتھ سلام اور وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے ساتھ جواب دینا افضل ہے۔ (ابي داود:۵۱۹۵)
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1032