وبهذا، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" اشترى رجل من بني إسرائيل من آخر ارضا فاصاب فيها جرة من ذهب مختومة، فقال للذي باع الارض: خذ جرتك هذه فإني إنما ابتعت الارض ولم ابتع الذهب، فقال الآخر: اترد علي مالا قد نزعه الله مني؟ فاختصما إلى قاض، فقال: الكما اولاد؟ فقالا: نعم، قال: هذا لي غلام، وقال الآخر: لي جارية، قال: فانكحوا احدهما الآخر واعطوهما المال فليستعينا منه وليتصدقا".وَبِهَذَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" اشْتَرَى رَجُلٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ آخَرَ أَرْضًا فَأَصَابَ فِيهَا جَرَّةً مِنْ ذَهَبٍ مَخْتُومَةً، فَقَالَ لِلَّذِي بَاعَ الْأَرْضَ: خُذْ جَرَّتَكَ هَذِهِ فَإِنِّي إِنَّمَا ابْتَعْتُ الْأَرْضَ وَلَمْ أَبْتَعِ الذَّهَبَ، فَقَالَ الْآخَرُ: أَتَرُدُّ عَلَيَّ مَالًا قَدْ نَزَعَهُ اللَّهُ مِنِّي؟ فَاخْتَصَمَا إِلَى قَاضٍ، فَقَالَ: أَلَكُمَا أَوْلَادٌ؟ فَقَالَا: نَعَمْ، قَالَ: هَذَا لِي غُلَامٌ، وَقَالَ الْآخَرُ: لِي جَارِيَةٌ، قَالَ: فَأَنْكِحُوا أَحَدَهُمَا الْآخَرَ وَأَعْطُوهُمَا الْمَالَ فَلْيَسْتَعِينَا مِنْهُ وَلْيَتَصَدَّقَا".
اسی سند سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کے ایک آدمی نے دوسرے سے زمین خریدی، اسے اس میں سے سونے کا مٹکا ملا جو کہ سیل بند تھا، پس اس نے زمین بیچنے والے سے کہا: اپنا یہ مٹکا لے لو، کیونکہ میں نے تو زمین خریدی تھی، سونا نہیں خریدا تھا، دوسرے شخص نے کہا: کیا تم وہ مال مجھے لوٹانا چاہتے ہے جسے اللہ نے مجھ سے چھین لیا ہے؟ پس وہ دونوں قاضی کے پاس مقدمہ لائے۔ تو اس نے کہا: کیا تم دونوں کی اولاد ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، ایک نے کہا: میرا ایک بیٹا ہے اور دوسرے نے کہا: میری ایک بیٹی ہے، اس نے کہا: پس ایک کی دوسرے سے شادی کر دو اور یہ مال ان دونوں کو دے دو وہ دونوں اس مال کو خود پر بھی خرچ کریں اور صدقہ بھی کریں۔“
تخریج الحدیث: «مسلم كتاب الاقضية، باب استحباب اصلاح الحاكم، رقم: 1721. مسند احمد: 316/2.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 896 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 896
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا پہلی امتوں کے واقعات بطور نصیحت یا عبرت بیان کرنے درست ہیں، بشرطیکہ وہ قرآن یا صحیح احادیث سے ثابت ہوں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ خرید و فروخت میں دیانتداری، خیر خواہی اور تقویٰ کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے۔ مذکورہ حدیث سے دیانتداری اور خیرخواہی کی برکت کا بھی اثبات ہوتا ہے۔ مدفون خزانہ اس شخص کی ملکیت ہوتی ہے جس کو ملے، بشرطیکہ یہ معلوم نہ ہو سکے کہ یہ کس نے دفن کیا تھا۔ اور مدفون خزانہ پورے کا پورا اپنی ذات پر خرچ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس کا خمس بیت المال میں جمع کرانا چاہیے۔ جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَفِیْ الرِّکَازِ خُمُسٌ))(بخاري، کتاب الزکاة، رقم: 1499).... ”مدفون خزانے میں پانچواں حصہ بیت المال کا حق ہے۔“