اخبرنا روح بن عبادة، نا ابن جریج، اخبرنی ابن ابی ملیکة، ان امراٰتین کانتا تخرزان في البیت، ولیس فی البیت معهما غیرهما، وفی الحجرة (حداث)، فطعنت احداهما الاخرٰی فی کفها باشفا، حتٰی خرجت من ظهر کفها، تقول: طعنتها الاخرٰی، فکتبت الی ابن عباس فیها واخبرته فقال: لا توطأ الا ببینة، فان رسول اللٰه صلی اللٰه علیه وسلم قال: لو اعطی الناس بدعواهم لادعٰی رجال دماء قوم واموالهم، ولٰکن الیمین علی المدٰعی علیہ، فادعهما فاقرأ علیهما القراٰن واقرأ: ﴿ان الذین یشترون بعهد اللٰه وایمانهم ثمنا قلیـلا﴾ (آل عمران:۷۷)، قال: ففعلت، فاعترفت.اَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عَبَادَةَ، نَا ابْنُ جُرَیْجٍ، اَخْبَرَنِیْ ابْنُ اَبِیْ مُلَیْکَةَ، اَنَّ اِمْرَاٰتَیْنِ کَانَتَا تَخْرِزَانِ فِي الْبَیْتِ، وَلَیْسَ فِی الْبَیْتِ مَعَهُمَا غَیْرُهُمَا، وَفِی الْحُجْرِةِ (حداث)، فَطَعَنَتْ اِحْدَاهُمَا الْاُخْرٰی فِی کَفِّهَا بَاشِفًا، حَتّٰی خَرَجَتْ مِنْ ظَهْرِ کَفِّهَا، تَقُوْلُ: طَعَنَتْهَا الْاُخْرٰی، فَکَتَبَتْ اِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْهَا وَاَخْبَرَتْهٗ فَقَالَ: لَا تَوَطَّأْ اِلَّا بِبَیِّنَةٍ، فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَوْ اُعْطِیَ النَّاسُ بِدَعْوَاهُمْ لَادَّعٰی رِجَالٌ دِمَاءَ قَوْمٍ وَاَمْوَالِهِمْ، وَلٰکِنَّ الْیَمِیْنَ عَلَی الْمُدّٰعَی عَلَیْہِ، فَادْعُهُمَا فَاقْرَأْ عَلَیْهِمَا الْقُرْاٰنَ وَاقْرَأْ: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ واَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیْـلًا﴾ (آل عمران:۷۷)، قَالَ: فَفَعَلَتْ، فَاعْتَرَفَتْ.
ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ دو عورتیں گھر میں جوتے / موزے سینے کا کام کرتی تھیں اور وہاں ان دونوں کے علاوہ کوئی اور ان کے ساتھ نہ تھا، ان میں سے ایک نے دوسری کے ہاتھ میں ستاری مار دی اور وہ ہاتھ کے پار ہو گئی، وہ کہنے لگی: دوسری نے اسے ستاری ماری ہے، اس کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نام خط لکھا گیا اور اس نے اسے بتایا تو انہوں نے کہا: دلیل اور ثبوت کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگوں کو محض ان کے دعوے کی بنا پر چیز دے دی جائے تو لوگ دوسروں کے جان و مال پر دعویٰ کر دیں گے، لیکن قسم مدعی علیہ کے ذمے ہے“، ان دونوں کو بلاؤ اور انہیں قرآن سناو: ”جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے بدلے میں تھوڑی سی قیمت لیتے ہیں۔“ پس اس نے یہ کہا: تو اس نے اعتراف کر لیا۔
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب التفسير، باب سورة الاعمران، رقم: 4552. مسلم، كتاب الاقضية، باب اليمين على المدعي عليه: 1711. سنن ابن ماجه، رقم: 2321. سنن نسائي، رقم: 5425.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 899 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 899
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا جھگڑوں کا فیصلہ گواہی پر ہوتا ہے اور مدعی کے ذمے ہے کہ وہ گواہ پیش کرے مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں بطور گواہ لائے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ فَاِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ﴾(البقرة: 282) .... ”اپنے مردوں میں سے دو گواہ بنا لو، پس اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں، جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کرو۔“ اگر مدعی کے پاس ایک گواہ ہے تو ایک گواہ اور اس سے قسم لی جائے گی۔ جیسا کہ سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ اور (مدعی کی) قسم کے ساتھ فیصلہ فرمایا۔ (مسلم، کتاب الاقضیة، رقم: 1712) اگر مدعی کے پاس کوئی گواہ نہ ہو تو مدعا علیہ سے قسم لی جائے گی اور وہ قسم کھا کر اپنے موقف کے برحق ہونے کی گواہی دے گا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ قسم لیتے وقت قاضی کو قسم کی اہمیت کے متعلق وعظ ونصیحت کرنی چاہیے۔