اخبرنا سفيان، عن عمرو، عن ابن ابي مليكة، عن يعلى بن مملك، عن ام الدرداء، تبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال: ((من اعطي حظه من الرفق اعطي حظه من الخير، ومن حرم حظه من الرفق حرم حظه من الخير)).أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مَمْلَكٍ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، تَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ أُعْطِي حَظَّهُ مِنَ الرِّفْقِ أُعْطِي حَظَّهُ مِنَ الْخَيْرِ، وَمَنْ حُرِمَ حَظَّهُ مِنَ الرِّفْقِ حُرِمَ حَظَّهُ مِنَ الْخَيْرِ)).
سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کرتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے نرمی میں سے اس کا حصہ عطا کر دیا گیا تو اسے خیر و بھلائی میں سے حصہ عطا کر دیا گیا اور جو نرمی سے محروم کر دیا گیا تو وہ اتنا ہی خیر و بھلائی سے محروم کر دیا گیا۔“
تخریج الحدیث: «سنن ترمذي، ابواب البروالصلة، باب ماجاء فى الرقق، رقم: 2013 قال الالباني: صحيح. مسند احمد: 159/6. سنن كبري بيهقي: 193/10. ادب المفرد، رقم: 464. صحيح الجامع الصغير، رقم: 6055.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 810 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 810
فوائد: مذکورہ حدیث سے نرمی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ جس کو صفت نرمی سے نوازا گیا تو وہ اچھائی اور بھلائی سے نوازا گیا اور جو شخص اس سے محروم رہا، وہ اچھائی اور بھلائی سے یکسر محروم اور خالی ہاتھ رہا۔ سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تم کو ایسے شخص کے بارے میں نہ بتلاؤں جو آگ پر حرام ہو یا آگ جس پر حرام ہو؟ وہ ہر دلعزیز، نرمی کرنے والا اور آسانی کرنے والا ہے۔“(سلسلة الصحیحة، رقم: 938) نرمی کرنا اللہ ذوالجلال کی صفتوں میں سے ہے اور وہ پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے بھی نرمی کریں، جیسا کہ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اکھڑ پن جس چیز میں ہوگا اسے بدنما کردے گا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نرمی والا ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے۔“(ادب المفرد، رقم: 466) شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے۔