قالت: وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ((من ذب عن عرض اخيه بظهر الغيب كان حقا على الله ان يعتقه من النار)).قَالَتْ: وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((مَنْ ذَبَّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُعْتِقَهُ مِنَ النَّارِ)).
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے اپنے (مسلمان) بھائی کا اس کی غیر موجودگی میں دفاع کیا، تو اللہ پر حق ہے کہ وہ اسے جہنم سے آزاد کر دے۔“
تخریج الحدیث: «سنن ترمذي، ابواب البرولصلة، باب الذب عن عرض المسلم، رقم: 1931. قال الشيخ الالباني: صحيح. مسند احمد: 449/6.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 803 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 803
فوائد: مذکورہ حدیث سے مسلم بھائی کی عزت کا دفاع کرنے کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔ دفاع کا مطلب کیا ہے؟ کسی مجلس میں کوئی کسی کی عیب جوئی کررہا ہو، تو سننے والوں کو چاہیے کہ غیبت یا عیب جوئی کرنے والے کو منع کریں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں، جیسا کہ سیّدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے جنگ تبوک کے موقعہ پر ان کی آزمائش اور توبہ کی طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں بیٹھے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کعب بن مالک نے کیا کیا؟ بنو سلمہ کا ایک آدمی کہنے لگا: یا رسول اللہ! اسے اس کی دوچادروں (کی خوبصورتی) نے اور اپنے کندھوں کو دیکھنے نے یہاں آنے نہیں دیا۔ سیّدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہنے لگے: تم نے جو کہا برا کہا، اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! ہم تو اس کے متعلق بھلائی کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔ (بخاري، کتاب المغازی، رقم: 4418۔ مسلم، رقم: 2769) ایسی مجلس جہاں کسی مسلمان کی غیبت ہو اگر ممکن ہو تو ان لوگوں کو روکنا چاہیے، اگر روکنے کی طاقت نہیں تو مجلس سے اٹھ جانا بہتر ہے۔