اخبرنا كلثوم، نا عطاء، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((سباب المسلم فسوق وقتاله كفر)).أَخْبَرَنَا كُلْثُومٌ، نا عَطَاءٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ)).
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے مومن بھائی کی ضرورت پوری کی تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے اپنی زندگی اللہ کی خدمت میں صرف کر دی۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الادب، باب ما ينهي من السباب واللعن، رقم: 6044. مسلم، كتاب الايمان، باب بيان قول النبى صلى الله عليه وسلم سباب المسلم فسوق وقتاله كفر، رقم: 64. سنن ترمذي، رقم: 1983. سنن نسائي، رقم: 4015. سنن ابن ماجه، رقم: 69.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 788 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 788
فوائد: (1) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا مسلمان کو گالی دینا اور اس سے لڑائی کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ شریعت کو مسلمانوں کے باہمی تعلقات کا خوش گوار ہونا مطلوب ہے۔ اس لیے شریعت نے ان کاموں سے روکا ہے جن کی وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ معلوم ہوا مسلمان کو گالی دینا فسق ہے۔ فسق کا مطلب ہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نکلنا، شرع میں عصیان سے سخت ہے۔ ﴿وَکَرَّہَ اِِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ﴾(الحجرات: 7).... ”اور اس نے کفر، فسوق اور عصیان کو تمہارے لیے ناپسند بنا دیا۔“ اگر کوئی صبر کرے اور جواب نہ دے بلکہ معاف کر دے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ﴾(الشوریٰ: 43).... ”اور جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو یقینا یہ پختہ عزم کا کام ہے۔“ اگر بدلہ بھی لینا ہے تو اس میں شرط یہ ہے کہ اتنی گالی دے جتنی اسے دی گئی ہے، زیادتی نہ کرے اور نہ وہ بات کرے جو جھوٹ ہو۔ اس صورت میں دونوں کا گناہ گالی کی ابتداء کرنے والے پر ہوگا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو گالی گلوچ کرنے والے جو کچھ بھی کہیں اس کا گناہ پہل کرنے والے پر ہے،جب تک مظلوم زیادتی نہ کرے۔“(مسلم، رقم: 2587) (2).... مسلمان سے لڑائی کرنا کفر ہے۔ وہ کفر مراد نہیں جس کی وجہ سے آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ بلکہ علماء نے کفر کی دو اقسام بیان کی ہیں: ایک وہ جس سے انسان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ یہ بڑا کفر ہے۔ دوسرا (کُفْرٌ دُوْنَ کُفْرٍ) یعنی بڑے کفر سے کم تر کفر۔ اس کی وجہ سے انسان دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا﴾(الحجرات: 9).... ”اگر مومنوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کروا دو۔“ اس کے بعد والی آیت میں فرمایا: ﴿اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ﴾(الحجرات:10)”مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں، اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کروا دو۔“ معلوم ہوا مسلمان آپس میں لڑائی کے باوجود مومن ہیں، ان کی ایمانی اخوت ختم نہیں ہوئی کہ وہ ملت اسلام سے خارج ہوجائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍ﴾(البقرة: 178).... ”تو جس شخص کو اپنے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کر دی جائے تو پیچھا کرنا ہے اچھے طریقے سے اور اس کی طرف ادا کرنا ہے احسان کے ساتھ۔“ معلوم ہوا قتل کے باوجود قاتل مسلمان ہے اور مقتول کے وارثوں کا دینی اور ایمانی بھائی ہے۔