اخبرنا الوليد بن مسلم، نا زهير بن محمد، عن موسى بن وردان، قال: سمعت ابا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((المرء على دين خليله فلينظر احدكم من يخالل)).أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، نا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ وَرْدَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((الْمَرْءُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی اپنے خلیل (دوست) کے دین پر ہوتا ہے، پس تم میں سے کوئی دیکھے کہ وہ کس کو دوست بناتا ہے؟“
تخریج الحدیث: «سنن ابوداود، كتاب الادب، باب من يومر ان يجالس، رقم: 4833. سنن ترمذي، كتاب الزهد، رقم: 2378. مسند احمد: 303/2. قال الشيخ الالباني: اسناده حسن.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 778 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 778
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ دوستی کا اثر انسان کی شخصیت پر ہوتا ہے، اگر دوست اچھا ہوگا تو اپنے دوست پر بھی اچھا اثر ڈالے گا اگر دوست برا ہوگا، تو اثر بھی برا ڈالے گا۔ آج کی جدید سائنس بھی مذکورہ بالا فرمان نبوی کو تسلیم کرتی ہے۔ ایک ماہر معاشرت اور ماہر نفسیات نے دوستی کے اثر کو مندرجہ ذیل طریقے پر پیش کیا ہے کہ بڑوں کی دوستی آدمی کو بڑا بنا دیتی ہے جبکہ بروں کی دوستی آدمی کو برا بنا دیتی ہے، کیونکہ دوست اپنے دوست کی تقلید کرتا ہے جس نے نمازیوں سے دوستی کی وہ نمازی بن گیا اور جس نے بادشاہوں سے دوستی کی وہ بادشاہ بن گیا۔ لہٰذا دوستی لگاتے وقت دیکھنا چاہیے کہ کیا یہ دیندار ہے یا نہیں؟ کیونکہ اگر نیک ہوگا تو نیکوں کی صحبت اس کو نیک اور بروں کی صحبت برا بنا دے گی۔ جیسا کہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بے شک نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نیک ساتھی کی اور برے ساتھی کی مثال ایسی ہے جیسے کستوری اٹھانے والا اور آگ کی بھٹی دھونکنے والا۔ پس کستوری اٹھانے والا یا تو تجھے (کستوری) عطیہ دے دے گا یا تو خود اس سے خریدے گا۔ (یہ دونوں صورتیں نہ ہوں تب بھی) یا یہ کہ تو اس سے پاکیزہ خوشبو پائے گا۔ اور بھٹی دھونکنے والا یا تو تیرے کپڑے جلا دے گا یا پھر تو اس سے بدبودار بو پائے گا۔ “(بخاري، کتاب الذبائح، رقم: 5534۔ مسلم، کتاب البروالصلة، رقم: 2628) شاعر نے حدیث کو اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا: جہاں عطر کھینچتا ہے جاؤ وہاں گر تو آؤ گے ایک روز کپڑے بسا کر جہاں آگ جلتی ہے جاؤ وہاں گر تو آؤ گے ایک روز کپڑے جلا کر مانا کہ کپڑے بچاتے رہے تم مگر آگ کی سینک کھاتے رہے تم