اخبرنا النضر بن شميل، نا شعبة، نا داود بن فراهيج، قال: سمعت ابا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((ما زال جبريل يوصيني بالجار حتى ظننت او حسبت انه سيورثه)).أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، نا شُعْبَةُ، نا دَاوُدُ بْنُ فَرَاهِيجَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَوْ حَسِبْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبریل علیہ السلام ہمسائے کے بارے میں مجھے وصیت کرتے رہے حتیٰ کہ میں نے گمان کیا کہ وہ اسے وراثت میں حصہ دار بنا دیں گے۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الادب، باب الوصٰة بالجار، رقم: 6015، 6014. مسلم، كتاب البروالصلة، باب والوصية بالجار والا حسان اليه، رقم: 2624. سنن ابوداود، رقم: 5151. سنن ترمذي، رقم: 1942.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 760 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 760
فوائد: مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پڑوسی کے حق اور اس کے ساتھ اکرام ورعایت کا رویہ رکھنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیدنا جبریل علیہ السلام مسلسل تاکیدی احکام لاتے رہے، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوا کہ شاید اس کو وارث بنا دیا جائے گا۔ یعنی حکم آجائے گا کہ کسی کے مر جانے کے بعد جس طرح اس کے ماں باپ، اس کی اولاد اور دوسرے اقارب اس کے ترکہ کے وارث ہوتے ہیں، اس طرح پڑوسی کا بھی اس میں حصہ ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اس ارشاد کا مقصد ایک واقعہ کا بیان نہیں ہے۔ بلکہ پڑوسیوں کے حق کی اہمیت کو بتانے کے لیے یہ ایک بہت اہم فرمان ہے، اس طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَاللّٰهِ لَا یُؤْمِنُ وَاللّٰهِ لَا یُؤْمِنُ وَاللّٰهِ لَا یُؤْمِنُ قِیْلَ مَنْ یَا رَسُوْل اللّٰهِ۔)) ”اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلَّذِیْ لَا یَأْمَنُ جَارُةٗ بَوَائِقَهٗ)).... ”جس شخص کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔“(بخاري، رقم: 6016) اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا اللہ ذوالجلال نے بھی حکم دیا ہے۔ ﴿وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْجَارِ الْجُنُبِ﴾(النسآء: 36)”تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ نیز رشتے داروں، یتیموں، مساکین سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے۔“ معلوم ہوا رشتہ دار اور غیر رشتہ دار ہمسائیوں سے بھی حسن سلوک کرنا چاہیے۔ لیکن اگر حسن سلوک نہ کرے گا اور ان کو اذیتیں پہنچائے گا تو ایسا شخص جنت سے محروم ہو جائے گا۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ آدمی جنت میں داخل نہ ہو سکے گا جس کی شرارتوں اور ایذارسانیوں سے اس کا پڑوسی مطمئن نہ ہو۔ “(ادب المفرد، رقم: 121) ہمسایہ کی تین قسمیں ہیں: 1- رشتہ دار ہمسایہ۔ 2۔ غیر رشتہ دار ہمسایہ (غیر مسلم) 3۔جس سے عارضی ہمسائیگی کا تعلق ہو جیسے ہم جماعت، ہم سفر اور ہم پیشہ وغیرہ ہر قسم کے ہمسائے سے حسنِ سلوک کا حکم ہے۔