اخبرنا عبد الرزاق، انا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، ان ابا عمرو بن حفص بن المغيرة خرج مع علي بن ابي طالب إلى اليمن، فارسل إلى فاطمة بنت قيس بتطليقة، كانت بقي من طلاقها، وامر لها الحارث بن هشام وعياش بن ابي ربيعة بنفقة، فقالا لها: والله ما لك من نفقة إلا ان تكوني حبلى، فاتت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال: ((لا نفقة لك، فاعتدي عند ابن ام مكتوم))، وهو اعمى تضع ثيابها عنده ولا يراها، فلما انقضت عدتها انكحها رسول الله صلى الله عليه وسلم اسامة بن زيد، فبلغ ذلك مروان، فارسل قبيصة بن ذؤيب إليها يسالها عن هذا الحديث، فحدثته، فقال مروان: لم نسمع بهذا الحديث إلا من امراة سناخذ بالعصمة التي وجدنا الناس عليها، فبلغ فاطمة قول مروان، فقالت: بيني وبينكم القرآن، قال الله عز وجل في كتابه: ﴿ولا يخرجن﴾ [الطلاق: 1] من بيوتهن ﴿إلا ان ياتين بفاحشة مبينة﴾ [النساء: 19] حتى بلغ: ﴿لعل الله يحدث بعد ذلك امرا﴾ [الطلاق: 1]فقالت: هذا لمن كان له رجعة عليها، فاي امر يحدث بعد الثلاث؟ فكيف تنفقون عليها إلا ان تكون حبلى؟ فعلى ما يحبسونها.أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أنا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ خَرَجَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَرْسَلَ إِلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ بِتَطْلِيقَةٍ، كَانَتْ بَقِيَ مِنْ طَلَاقِهَا، وَأَمَرَ لَهَا الْحَارِثُ بْنُ هِشَامٍ وَعَيَّاشُ بْنُ أَبِي رَبِيعَةَ بِنَفَقَةٍ، فَقَالَا لَهَا: وَاللَّهِ مَا لَكِ مِنْ نَفَقَةٍ إِلَّا أَنْ تَكُونِي حُبْلَى، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: ((لَا نَفَقَةَ لَكِ، فَاعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ))، وَهُوَ أَعْمَى تَضَعُ ثِيَابَهَا عِنْدَهُ وَلَا يَرَاهَا، فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا أَنْكَحَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ مَرْوَانَ، فَأَرْسَلَ قَبِيصَةَ بْنَ ذُؤَيْبٍ إِلَيْهَا يَسْأَلُهَا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ مَرْوَانُ: لَمْ نَسْمَعْ بِهَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا مِنَ امْرَأَةٍ سَنَأْخُذُ بِالْعِصْمَةِ الَّتِي وَجَدْنَا النَّاسَ عَلَيْهَا، فَبَلَغَ فَاطِمَةُ قَوْلَ مَرْوَانَ، فَقَالَتْ: بَيْنِي وَبَيْنَكُمُ الْقُرْآنُ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ: ﴿وَلَا يَخْرُجْنَ﴾ [الطلاق: 1] مِنْ بُيُوتِهِنَّ ﴿إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ﴾ [النساء: 19] حَتَّى بَلَغَ: ﴿لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا﴾ [الطلاق: 1]فَقَالَتْ: هَذَا لِمَنْ كَانَ لَهُ رَجْعَةٌ عَلَيْهَا، فَأَيُّ أَمْرٍ يَحْدُثُ بَعْدَ الثَّلَاثِ؟ فَكَيْفَ تُنْفِقُونَ عَلَيْهَا إِلَّا أَنْ تَكُونَ حُبْلَى؟ فَعَلَى مَا يَحْبِسُونَهَا.
عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ علی بن ابی طالب کے ساتھ یمن کی طرف روانہ ہوئے، تو انہوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو آخری طلاق بھی بھیج دی اور حارث بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ کو خرچ دینے کے لیے کہا، تو ان دونوں نے اسے کہا: اللہ کی قسم! تم خرچ کی حق دار نہیں الا یہ کہ تم حاملہ ہو، پس وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لیے کوئی خرچ نہیں، پس تم ابن ام مکتوم کے ہاں عدت گزارو جبکہ وہ نابینا ہے، تم اس کے ہاں اپنے کپڑے اتار بھی دو گی تو وہ دیکھ نہیں سکے گا“، پس جب اس نے اپنی عدت پوری کر لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نکاح اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے کر دیا، مروان کو اس کی خبر پہنچی، تو انہوں نے قبیصہ بن ذویب کو ان کی طرف بھیجا تاکہ وہ ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھے، انہوں نے نے اسے بیان کیا، تو مروان نے کہا: یہ حدیث صرف ایک عورت ہی سے سنی گئی ہے، ہم نے صرف وہی درست راستہ اختیار کریں گے جس پر ہم لوگوں کو پایا ہے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مروان کی بات پہنچی تو انہوں نے فرمایا: میرے اور تمہارے درمیان قرآن (دلیل) ہے، اللہ عزوجل نے اپنی کتاب میں فرمایا: ”وہ نہ نکلیں الا یہ کہ وہ کسی واضح / کھلی بے حیائی کا ارتکا ب کریں۔“ ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد اللہ کوئی سبیل پیدا کر دے۔ تو کہا: یہ اس شخص کے لیے ہے جسے اس پر رجوع کرنے کا حق حاصل ہو، تین طلاقوں کے بعد کون سی سبیل پیدا ہو گی، وہ تجھ پر کسی طرح خرچ کریں الا یہ کہ تم حاملہ ہو تو وہ کس بنیاد پر اسے روکیں گے۔
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الطلاق، باب المطلقة ثلاثا نفقة لها، رقم: 41/1480. سنن ابوداود، كتاب الطلاق، باب نفقة المبتوثه، رقم: 2290. مسند احمد: 414/6. مصنف عبدالرزاق، رقم: 12024.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 635 کے فوائد و مسائل