وبهذا الإسناد، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: قلت: ((من امر الجاهلية النياحة، وتبرئ امرئ من ابنه، وفخره على الناس)).وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قُلْتُ: ((مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ النِّيَاحَةُ، وَتَبَرُّئ امْرِئٍ مِنَ ابْنِهِ، وَفَخْرُهُ عَلَى النَّاسِ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین کام امر جاہلیت میں سے ہیں: نوحہ کرنا، کسی شخص کا اپنے والد سے لاتعلقی ظاہر کرنا اور اس کا لوگوں پر فخر کرنا۔“
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 262/2. صحيح ابن حبان، رقم: 3131»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 51 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 51
فوائد: مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ مذکورہ کام امت مسلمہ میں جاہلیت کے باقی رہنے والے کام ہیں۔ (1) نوحہ کرنا:.... نوحہ سے مراد یہ ہے کہ میت کے اوصاف بیان کرنا یا اس کے بعد آنے والی متوقع مشکلات کا اونچی اونچی آواز سے ذکر کر کے رونا پیٹنا منع ہے۔ مسلم شریف میں ہے سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بین کرنے والی عورت اگر مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو اسے قیامت کے دن اس طرح کھڑا کیا جائے گا کہ اس پر تارکول کا کرتہ اور خارش کی زرہ ہوگی۔ (2) اپنے والد سے لا تعلقی ظاہر کرنا:.... مطلب یہ کہ اپنے والد کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف نسبت کرنا۔ (3) لوگوں پر فخر کرنا:.... ایک حدیث میں ہے: ”اَلتَّفَاخُرُ فِی الْاَحْسَابِ۔“(سلسلة الصحیحة، رقم: 1799) یعنی ”خاندانی عظمت پر فخر کرنا۔“ معلوم ہوا لوگوں پر حسب و نسب کی بنیاد پر فخر کرنا جاہلیت کے امور سے ہے کیونکہ خاندانوں اور قبیلوں کی تقسیم محض تعارف کے لیے ہے اللہ ذوالجلال کے ہاں عزت کا معیار خاندان یا مال نہیں ہے۔ لوگوں پر فخر کرنا یعنی لوگوں کو حقیر جاننا تکبر کی علامت ہے۔