اخبرنا جرير، عن الاعمش، عن ابي حازم، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((لو اهدي إلي كراع لقبلت))، قال جرير: واراه قال: ((لو دعيت إلى ذراع لاجبت)).أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَوْ أُهْدِيَ إِلَيَّ كُرَاعٌ لَقَبِلْتُ))، قَالَ جَرِيرٌ: وَأَرَاهُ قَالَ: ((لَوْ دُعِيتُ إِلَى ذِرَاعٍ لَأَجَبْتُ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مجھے دستی کے گوشت کا ہدیہ کیا جائے، تو میں قبول کروں گا۔“ جریر رحمہ الله نے بیان کیا: میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مجھے دستی کے گوشت کی دعوت دی جائے تو میں قبول کروں گا۔“
تخریج الحدیث: «السابق»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 495 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 495
فوائد: (1).... مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا دعوت کسی غریب کی سادہ اور معمولی سی بھی ہو تو قبول کرنی چاہیے۔ اور دعوت قبول کرنا مسلمان کے حقوق میں سے ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” مسلمان کے حق مسلمان پر چھ ہیں۔ (ان میں سے ایک حق یہ ہے کہ)”اِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ“ .... ”جب تجھے دعوت دے، تو قبول کر۔“ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَمَنْ لَّمْ یُجِبِ الدَّعْوَةَ فَقَدْ عَصَی اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ))”جس نے دعوت قبول نہ کی، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔“ ایک دوسری حدیث میں ہے: ((اِذَا دُعِیَ اَحَدُکُمْ فَلْیُجِبْ))(مسلم، کتاب النکاح، رقم: 1431) .... ”جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے، تو وہ اسے قبول کرے۔“ خصوصاً ولیمہ کی دعوت۔ (2).... یہ بھی معلوم ہوا کہ معمولی چیز بھی اگر ہدیہ دی جائے، اس کو معمولی سمجھ کر رد نہ کیا جائے۔ بلکہ قبول کر لینا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ جس نے ہدیہ دیا ہے، اس کو حسب استطاعت کچھ نہ کچھ دے دیا جائے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرمایا کرتے تھے اور اس کا بدلہ بھی دیتے تھے۔ (بخاري، کتاب الهبة وفضلها، رقم: 2585۔ سنن ابي داود، رقم: 3536) اگر کچھ بھی نہ دے سکے تو جزاك اللّٰه خیرًا کہہ کر دعا ہی دے دینی چاہیے۔