اخبرنا ابو عامر العقدي، نا همام بن يحيى، عن قتادة، عن عبد الملك، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((من عرض عليه شيء من غير مسالة فليقبله فإنما هو رزق ساقه الله إليه)).أَخْبَرَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، نا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ عُرِضَ عَلَيْهِ شَيْءٌ مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ فَلْيَقْبَلْهُ فَإِنَّمَا هُوَ رِزْقٌ سَاقَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو سوال کیے بغیر کوئی چیز پیش کی جائے اور وہ اسے قبول کر لے، تو وہ ایک رزق ہے جو اللہ نے اس کی طرف بھیجا ہے۔“
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 292/2. قال شعيب الارناوط: صحيح لغيره. مسند ابي يعلي: 226/2.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 492 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 492
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا انسان کو حریص اور لالچی نہیں ہونا چاہیے کہ لوگوں کے مال کے بارے میں حرص اور لالچ رکھے۔ نہ لوگوں کے مال کا لالچ دل میں رکھنا چاہیے اور نہ ہی زبان سے مانگنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَّمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُوْلٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾(الحشر: 9) .... ”اور جو اپنے نفس کے بخل اور حرص سے بچا لیا گیا، وہی کامیاب ہیں۔“ لیکن جب بغیر محنت ومشقت اور حرص وطمع کے مال مل جائے تو وہ قبول کر لینا چاہیے کیونکہ اللہ ذوالجلال نے اس کے لیے رزق کے اسباب پیدا کیے ہیں اور اس کو اللہ ذوالجلال کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے۔