مسند اسحاق بن راهويه کل احادیث 981 :حدیث نمبر

مسند اسحاق بن راهويه
ہبہ اور اس کی فضیلت کا بیان
1. عمریٰ (مدتِ عمر تک کسی چیز کا ہبہ کرنا) کا بیان
حدیث نمبر: 491
Save to word اعراب
اخبرنا النضر، نا شعبة، عن قتادة، قال: سمعت عطاء، يحدث عن جابر بن عبد الله، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: العمرى جائزة.أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً، يُحَدِّثُ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْعُمْرَى جَائِزَةٌ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمریٰ جائز ہے۔

تخریج الحدیث: «تقدم تخريجه: 106.»

مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 491 کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 491  
فوائد:
عمریٰ: عمر سے ماخوذ ہے یعنی وہ چیز جو زندگی بھر کے لیے دی جائے۔ یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ جاہلیت میں ایک آدمی کسی دوسرے آدمی کو گھر دیتا تو کہتا: میں نے اسے یہ گھر عمر اور زندگی کی مدت تک مباح قرار دیا ہے، پھر کہا جاتا تھا کہ یہ فلاں کے لیے عمریٰ ہے۔ (المنجد: ص582۔ نیل الاوطار: 4؍ 74)
اہل علم نے عمریٰ کی تین صورتیں بیان کی ہیں: ایک یہ کہ مطلق طور پر عمر بھر کے لیے ہبہ کر دینا۔ دوسری یہ کہ جس کو چیز ہبہ کی جا رہی ہے۔ اس کو زندگی کی شرط پر دینا، تیسری یہ کہ یوں کہنا کہ یہ تمہارے لیے ہے اور تمہارے بعد تمہارے ورثا کے لیے ہے۔ تیسری صورت جمہور کا موقف ہے۔ (فتح الباري: 5؍ 282) اور مذکورہ بالا حدیث سے بھی یہ موقف ثابت ہے اور لفظ جائزہ کے معنی ماضیہ ومستمرۃ ہیں۔ یعنی مرنے کے بعد موہوب لہ کی اولاد اس کی وارث ہوگی۔ خواہ اولاد کا ذکر نہ بھی کرے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ جمہور کا موقف دلائل سے راجح معلوم ہوتا ہے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 491   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.