اخبرنا النضر بن شمیل، نا هشام بن حسان، عن عکرمة، عن ابن عباس قال: توفی رسول اللٰه صلی اللٰه علیه وسلم ودرعه مرهونة عند رجل من یهود بثلاثین صاعا من شعیر، اخذه طعاما لاهله.اَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَیْلٍ، نَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانٍ، عَنْ عِکْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: تُوْفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَدِرْعُهٗ مَرْهُوْنَةٌ عِنْدَ رَجُلٍ مِّنْ یَهُوْدٍ بِثَلَاثِیْنَ صَاعًا مِّنْ شَعِیرٍ، اَخَذَهٗ طَعَامًا لِاَهْلِه.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ تیس صاع جو کے عوض، جو کہ آپ نے اپنے اہل خانہ کے کھانے کے واسطے لیے تھے، ایک یہودی شخص کے ہاں گروی تھی۔
تخریج الحدیث: «سنن ترمذي، ابواب البيوع، باب ماجاء فى الرخصة فى الشرا الي اجل، رقم: 1214. قال الشيخ الالباني: صحيح. مسند احمد: 300/1. سنن ابن ماجه، رقم: 2439. سنن كبري بيهقي: 36/6.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 468 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 468
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کوئی چیز گروی رکھنا جائز ہے۔ گروی کا مطلب کیا ہے، قرض کے بدلے کوئی مال بحیثیت دستاویز دینا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ﴾(البقرۃ: 283) ”اگر تم سفر میں ہو اور تمہیں (قرض کا لین دین) لکھنے والا نہ ملے تو رہن قبضے میں رکھ لیا کرو۔“ مذکورہ بالا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر مسلموں سے لین دین کرنا جائز ہے۔ مذکورہ حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خود داری بھی ثابت ہوتی ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بڑے مالدار بھی تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے قرض نہیں لیا کرتے تھے۔ دوسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زہد کا بھی اثبات ہوتا ہے۔ تیسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مالِ غنیمت میں سے پانچواں حصہ آتا تھا، جو آپ کے لیے تھا لیکن اس کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی ضروریات کے لیے خرچ کردیتے تھے۔ (کیا مرتہن کے لیے رہن رکھی ہوئی چیز سے نفع اٹھانا جائز ہے؟) اگر ضرورت ہو تو رہن رکھے ہوئے جانور کو چارے کے عوض سواری کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا اور اس کا دودھ بھی استعمال کرنا جائز ہے۔