اخبرنا عثمان بن عمر، نا ابن ابي ذئب، عن صالح مولى التوءمة , عن ابن عباس، عن ام الفضل انها ارسلت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بلبن يوم عرفة وهو يخطب فشربه".أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، نا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَى التَّوْءَمَةِ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ أَنَّهَا أَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَبَنٍ يَوْمَ عَرَفَةَ وَهُوَ يَخْطُبُ فَشَرِبَهُ".
سیدہ ام الفضل رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ بھیجا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا۔
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الصوم، باب صوم يوم عرفة، رقم: 1988. مسلم، كتاب الصيام، باب استحباب الفطر للحاج يوم عرفه، رقم: 1124. سنن ابوداود، رقم: 2441.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 424 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 424
فوائد: صحیح بخاری میں ہے سیّدہ ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ عرفہ کے روز کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے بارے میں اختلاف کیا۔ کچھ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہیں اور بعض نے کہا کہ روزہ سے نہیں ہیں۔ اس پر سیّدہ ام فضل رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ بھیجا۔ (تاکہ حقیقت ظاہر ہوجائے) آپ اپنے اونٹ پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پی لیا۔ (بخاري، رقم: 1988) سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ ”عرفات میں روزہ رکھا جائے۔ “(سنن ابي داود، کتاب الصیام، رقم: 2440) یہ ممانعت حجاج کرام کے لیے ہے جبکہ غیر حجاج کے لیے یہ روزہ مشروع ہے۔ کیونکہ اس روزے کی بہت زیادہ فضیلت ہے، اس سے دو سالوں کے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صَیَامُ یَوْمِ عَرَفَةَ اَنِّیْ اَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰهِ اَنْ یُّکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِیْ قَبْلَهٗ وَالَّتِیْ بَعْدَہٗ۔))(سنن ابن ماجة، رقم: 1730) .... ”مجھے اللہ تعالیٰ پر یقین ہے کہ وہ یومِ عرفہ کے روزہ پر روزہ دار کے ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہ معاف کردے گا۔“