اخبرنا جریر عن یزید بن ابی زیاد، عن عکرمة، عن ابن عباس قال: طاف رسول اللٰه صلی اللٰه علیه وسلم بالبیت علٰی بعیر، ومعه محجن یستلم الحجر، فلما طاف اسبوعا صلی رکعتین، ثم اتی السقایة فدعا بشراب، فقال العباس: یا رسول اللٰه الا نامر لك مما نصنع فی بیوتنا، فقال لا، بل تسقونی مما یشرب منه الناس، فاتی به فشرب.اَخْبَرَنَا جَرِیْرٌ عَنْ یَزِیْدَ بْنِ اَبِیْ زِیَادٍ، عَنْ عِکْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: طَافَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَیْتِ عَلٰی بَعِیْرٍ، وَمَعَهٗ مِحْجَنٌ یَسْتَلِمُ الْحَجَرَ، فَلَمَّا طَافَ اسْبُوْعًا صَلَّی رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ اَتَی السِّقَایَةَ فَدَعَا بِشَرَابٍ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ اَلَا نَأْمُرُ لَكَ مِمَّا نَصْنَعُ فِیْ بُیُوْتِنَا، فَقَالَ لَا، بَلْ تَسْقُوْنِیْ مِمَّا یَشْرَبُ مِنْهُ النَّاسُ، فَاُتِیَ بِهِ فَشَرَبَ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر بیت اللہ کا طواف کیا، آپ کے پاس خم دار چھڑی تھی جس سے حجر اسود کا استلام کرتے تھے، جب آپ نے سات چکر لگا لیے تو دو رکعتیں پڑھیں، پھر آپ پانی پلانے کی جگہ تشریف لائے تو پانی طلب فرمایا، سیدنا عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جس طرح ہم اپنے گھروں میں کرتے ہیں کیا آپ کے لیے بھی اسی چیز کا حکم نہ دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ تم مجھے بھی وہیں سے پلاؤ جہاں سے دوسرے لوگ پی رہے ہیں“، پس آپ کی خدمت میں پانی (آب زم زم) پیش کیا گیا تو آپ نے نوش فرمایا۔
تخریج الحدیث: «»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 392 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 392
فوائد: (1) معلوم ہوا سواری پر بیت اللہ شریف کا طواف کرنا جائز ہے۔ (2).... معلوم ہوا کہ طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهِيْمَ مُصَلًّی﴾(البقرة:125) .... ”تم مقامِ ابراہیم کو جائے نماز مقرر کرلو۔“ اور ان دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد پہلی میں ﴿قُلْ یَاَیُّهَا الْکٰفِرُوْنَ﴾ اور دوسری رکعت میں ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ﴾ پڑھنا مسنون ہے۔ (سنن ترمذي، ابواب الحج، باب جاء ما یقرأ فی رکعتی الطواف) یہ بھی معلوم ہوا کہ مقام ابراہیم کی دو رکعتوں کے بعد زمزم پینا مسنون ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے حجۃ النبی میں نقل فرمایا ہے کہ مقام ابراہیم میں دو رکعتیں ادا کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمزم کے کنوئیں کی طرف گئے اور اس سے پانی پیا، اور کچھ پانی سر پر بھی ڈالا۔ (حجة النبی للالبانی، ص:58)