اخبرنا المعتمر بن سليمان، قال: سمعت ايوب، يحدث، عن ابي قلابة، عن ابي هريرة رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يبشر اصحابه يقول: ((جاءكم رمضان شهر مبارك فرض الله عليكم صيامه، يفتح فيه ابواب الجنة، ويغلق فيه ابواب الجحيم، وتغل فيه الشياطين، فيه ليلة خير من الف شهر، من حرم خيرها فقد حرم)).أَخْبَرَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَيُّوبَ، يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَشِّرُ أَصْحَابَهُ يَقُولُ: ((جَاءَكُمْ رَمَضَانُ شَهْرٌ مُبَارَكَ فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، يُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَيُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَحِيمِ، وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِينُ، فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خوش خبری سناتے ہوئے یوں فرمایا کرتے تھے: ”بابرکت ماہ رمضان تمہارے پاس آیا ہے، اللہ نے اس کا روزہ تم پر فرض کیا ہے، اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، شیاطین کو طوق پہنا دیئے جاتے ہیں، اس میں ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں (کی عبادت) سے بہتر ہے، جو اس کی خیر و بھلائی سے محروم رہا تو وہ (ہر لحاظ سے) محروم رہا۔“
تخریج الحدیث: «سنن نسائي، كتاب الصيام، باب ذكر الاختلاف على معمر، رقم: 2106. صحيح الجامع الصغير، رقم: 455. صحيح ترغيب وترهيب، رقم: 999. مسند احمد: 525/2.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 394 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 394
فوائد: (1).... صیام، صوم کا لغوی معنی رک جانا ہے اور اصطلاحی اعتبار سے روزہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ جس میں ایک مسلمان طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے، جماع کرنے سے رکا رہتا ہے۔ روزے دو ہجری میں فرض ہوئے، نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے نو سال ماہِ رمضان کے روزے رکھے۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ لیڈر کو اپنی رعایا کوخوشی کی خبر دینی چاہیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ویسے بھی بشیر اور مبشر تھے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ماہِ رمضان نیکیوں کے لحاظ سے بابرکت ہے کیونکہ اس مہینے میں کیا ہوا عمرہ حج کے برابر ہے۔ اور پھر روزے کا اجر بے حساب ہے۔ اس میں اللہ ذوالجلال کثرت سے اپنے بندوں کو جہنم سے آزاد کرتے ہیں اور روزوں کی برکت سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَلَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ۔))(بخاري، رقم: 38)”جس نے ایمان لاتے ہوئے اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔“ (2).... معلوم ہوا رمضان المبارک کے مہینے کے روزے فرض ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ﴾(البقرۃ: 183)”اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر (روزے) فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ (3).... جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ اس سے بھی ماہ رمضان کی عظمت وفضیلت ثابت ہوتی ہے اور دروازوں کا کھلنا اور بند ہونا حقیقی ہے۔ نہ کہ اس سے مراد رحمت و بخشش اور جہنم کے دروازوں سے مراد غضب کے دروازے ہیں، جیسا کہ بعض لوگ تاویلات پیش کرتے ہیں۔ (4).... معلوم ہوا ماہ رمضان میں شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے اس کے باوجود پھر بھی انسان گناہ کرتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ گناہ پر انسان کا اپنا نفس بھی ابھارتا ہے اور گیارہ مہینے انسان کا نفس گناہوں کا عادی ہوتا ہے اور پھر اس مہینے میں بھی انسان اپنی اصلاح کے لیے کوشش نہیں کرتا۔ روزے نہیں رکھتا، نہ تلاوت کرتا ہے، نہ ہی نفل ونوافل پڑھتا ہے اور اس کے نفس کی اصلاح رمضان المبارک میں بھی نہیں ہوتی، اس لیے وہ گناہوں سے نہیں بچتا۔ اس کا مشاہدہ یکم رمضان کی فجر کی نماز اور یکم شوال عیدالفطر کے روز فجر کی نماز میں نمازیوں کی تعداد سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ (5).... رمضان المبارک کی افضل ترین رات اور ہزار مہینوں سے بہتر لیلۃ القدر کی رات ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ﴾(القدر: 3).... ”قدر کی رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔“ معلوم ہوا لیلۃ القدر کی عبادت کرنا بڑی خوش قسمتی ہے۔ کیونکہ ایک رات عبادت میں گزارنے سے 83 سال 4 مہینے سے زیادہ راتوں کا ثواب مل جاتا ہے، لیکن کوئی سستی کرے تو حقیقتاً اتنے بڑے ثواب سے محروم رہنا بڑی بدنصیبی ہے۔