اخبرنا النضر بن شمیل، نا حماد بن سلمة، نا ابو عاصم، عن ابی الطفیل قال: قلت لابن عباس یزعم قومك ان رسول اللٰه صلی اللٰه علیه وسلم قد رمل، وانه سنة، فقال: صدقوا وکذبوا، قلت: وما صدقوا وکذبوا؟ فقال: قد رمل رسول اللٰه صلی اللٰه علیه وسلم ان قریشا قالت: دعوهم حتٰی یموتوا فی (العام) الذی احصروا فیه، فلما کان من العام المقبل قدم رسول اللٰه صلی اللٰه علیه وسلم مکة، والمشرکون من قبل قعیقعان، فامرهم رسول اللٰه صلی اللٰه علیه وسلم ان یرملوا بالبیت ثـلاثة اشواط فرملوا وسعوا الی الرکن، وذٰلك لیس بسنة، قلت لابن عباس: ان قومك یزعمون ان رسول اللٰه صلی اللٰه علیه وسلم طاف الصفا والمروة علٰی بعیر، وان ذٰلك سنة، فقال: صدقوا وکذبوا ان ابراهیم لما بین له المناسك، عرض له الشیطان فی السبع فسابقه، فسبقه ابراهیم، وان جبریل ذهب بهٖ الی الجمرة، فعرض له الشیطان فرماه سبع حصیات، فذهب ثم اتی بین الجمرة والوسطٰی، فرماه بسبع حصیات، فذهب ثم تل اسماعیل للجبین وعلیه ثوب ابیض فقال له: یا أبه انه لیس علٰی ثوب غیر (ذی) یکفینی عنه، فاخلعہ عنی حتٰی تلفنی فیه، فبینما هو یخلعه اذ نودی ﴿ان یابرهیم قد صدقت الرویا انا کذٰلك نجزی المحسنین﴾ فالتفت فاذا هو بکبش ابیض اقرن اعین، فذبحه ثم ذهب الی الجمرة القصوٰی فرماها سبع حصیات، ثم اتی بهٖ منی فقال: هٰذا مناخ الناس، ثم اتٰی بهٖ جمعا فقال: هذا المشعر الحرام، ثم اتٰی عرفة فقال له: هل عرفت؟ فمن ثم سمیت عرفة، ثم قال: اتدری کیف کانت التلبیة، ان ابراهیم امر ان یؤذن فی الناس بالحج، فرفعت له القرٰی، وخفضت الجبال ورؤوسها، فاذن بالناس فی الحج.اَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَیْلٍ، نَا حَمَّادُ بْنُ سَلِمَةَ، نَا اَبُوْ عَاصِمٍ، عَنْ اَبِی الطُّفَیْلِ قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ یَزْعَمُ قَوْمُكَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَمَلَ، وَاِنَّهٗ سُنَّةٌ، فَقَالَ: صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا، قُلْتُ: وَمَا صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا؟ فَقَالَ: قَدْ رَمَلَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اِنَّ قُرَیْشًا قَالَتْ: دَعَوْهُمْ حَتّٰی یَمُوْتُوْا فِی (العام) الَّذِیْ اُحْصِرُوْا فِیْهِ، فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَکَّةَ، وَالْمُشْرِکُوْنَ مِنْ قِبَلِ قُعَیْقَعَانَ، فَاَمَرَهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَنْ یَّرْمُلُوْا بِالْبَیْتِ ثَـلَاثَةَ اَشْوَاطٍ فَرَمَلُوْا وَسَعَوْا اِلَی الرُّکْنِ، وَذٰلِكَ لَیْسَ بِسُنَّةٍ، قُلْتُ لِاِبْنِ عَبَّاسٍ: اَنَّ قَوْمَكَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ طَافَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ عَلٰی بَعِیْرٍ، وَاِنَّ ذٰلِكَ سُنَّةٌ، فَقَالَ: صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا اِنَّ اِبْرَاهِیْمَ لَمَّا بَیَّنَ لَهٗ الْمَنَاسِكُ، عَرَضَ لَهٗ الشَّیْطَانُ فِی السَّبْعِ فَسَابَقَهٗ، فَسَبَقَهٗ اِبْرَاهِیْمُ، وَاِنَّ جِبْرِیْلَ ذَهَبَ بِهٖ اِلَی الْجَمْرَةَ، فَعَرَضَ لَهٗ الشَّیْطَانُ فَرَمَاهُ سَبْعَ حَصَیَاتٍ، فَذَهَبَ ثُمَّ اَتَی بَیْنَ الْجَمْرَةِ وَالْوُسْطٰی، فَرْمَاهُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ، فَذَهَبَ ثُمَّ تَلَّ اِسْمَاعِیْلَ لِلْجَبِیْنِ وَعَلَیْهِ ثَوْبٌ اَبْیَضُ فَقَالَ لَهٗ: یَا أَبَهْ اِنَّهٗ لَیْسَ عَلٰی ثَوْبٍ غَیْرِ (ذِی) یَکْفِیْنِیْ عَنْهُ، فَاَخْلَعَہٗ عَنِّیْ حَتّٰی تَلفنِیْ فِیْهِ، فَبَیْنَمَا هُوَ یَخْلَعُهٗ اِذْ نُوْدِیَ ﴿اَن یَّاِبْرَهِیْمَ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّوْیَا اِنَّا کَذٰلِكَ نَجْزِْی الْمُحْسِنِیْنَ﴾ فَالْتَفَتَ فَاِذَا هُوَ بِکَبْشٍ اَبْیَضِ اَقْرَنِ اَعْیَنِ، فَذَبَحَهٗ ثُمَّ ذَهَبَ اِلَی الْجَمْرَةِ الْقَصْوٰی فَرَمَاهَا سَبْعَ حَصَیَاتٍ، ثُمَّ اَتَی بِهٖ مِنًی فَقَالَ: هٰذَا مَنَاخِ النَّاسِ، ثُمَّ اَتٰی بِهٖ جَمْعًا فَقَالَ: هَذَا الْمَشْعَرُ الْحَرَامِ، ثُمَّ اَتٰی عَرْفَةَ فَقَالَ لَهٗ: هَلْ عَرَفْتَ؟ فَمِنْ ثُمَّ سُمِّیَتْ عَرَفَةَ، ثُمَّ قَالَ: اَتَدْرِیْ کَیْفَ کَانَتِ التَّلْبِیَّةُ، اِنَّ اِبْرَاهِیْمَ اُمِرَ اَنْ یُؤَذِّنَ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ، فَرُفِعَتْ لَهُ الْقُرٰی، وَخَفَضَتِ الْجِبَالُ وَرُؤُوْسُهَا، فَاَذَّنَ بِالنَّاسِ فِی الْحَجِّ.
ابوالطفیل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ کی قوم کے افراد کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمل کیا ہے اور یہ کہ وہ سنت ہے، تو انہوں نے فرمایا: ان لوگوں نے سچ کہا اور جھوٹ کہا ہے، میں نے کہا: انہوں نے کیا سچ کہا ہے اور کیا جھوٹ کہا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمل کیا، کیونکہ قریش نے کہا: انہیں چھوڑو حتیٰ کہ وہ اسی غار میں مر جائیں گے جس میں ان کا محاصرہ کیا گیا تھا، پس جب اگلا سال آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے، جبکہ مشرک قعیقعان (پہاڑ) کی جانب تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم فرمایا کہ وہ بیت اللہ کے تین چکروں میں رمل کریں (کندھے ہلا ہلا کر تیز تیز چلیں)، پس انہوں نے رکن تک رمل کیا، اور یہ سنت نہیں ہے، میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ کی قوم کے افراد کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا و مروہ کے درمیان اونٹ پر سعی کی ہے اور یہ سنت ہے، تو انہوں نے فرمایا: انہوں نے سچ کہا اور غلط بات کی ہے، کیونکہ جب ابراہیم علیہ السلام کو مناسک حج بیان کر دئیے گئے تو شیطان سات مقامات پر ان کے آڑے آیا، پس اس نے ان سے مسابقت کی تو ابراہیم علیہ السلام اس پر سبقت لے گئے اور جبریل علیہ السلام انہیں جمرہ پر لے گئے، شیطان ان کے آڑے آیا تو انہوں نے اسے سات کنکریاں ماریں، پس وہ چلا گیا، پھر وہ جمرہ اور جمرہ وسطی کے درمیان آیا تو انہوں نے اسے سات کنکریاں ماریں، وہ چلا گیا، پھر انہوں نے اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹایا اور ان پر سفید کپڑا تھا، کیونکہ لباس کے علاوہ ان پر کوئی اور کپڑا نہ تھا جو ان اس سے کفایت کرتا، پس اسے مجھ سے اتار دو حتیٰ کہ تم مجھے اس میں لپیٹ لو، پس اس اثنا میں کہ وہ اسے اتار رہے تھے تو آواز دی گئی: کہ ”اے ابراہیم! تم نے خواب سچ کر دکھایا، ہم نیکوکاروں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔“ پس انہوں نے اچانک وہاں سفید رنگ کا بڑی آنکھوں اور سینگوں والا مینڈھا دیکھا تو انہوں نے اسے ذبح کر دیا، پھر وہ جمرہ قصوی پر تشریف لے گئے تو اسے سات کنکریاں ماریں، پھر وہ انہیں منیٰ لائے تو انہیں فرمایا: یہ لوگوں کے اونٹ بٹھانے کی جگہ ہے، پھر انہیں مزدلفہ لائے، تو فرمایا: یہ مشعر حرام ہے، پھر انہیں عرفات لائے تو انہیں فرمایا: کیا تم نے معلوم کر لیا ہے؟ کہ اس کا نام عرفہ (عرفات) کیوں رکھا گیا؟ پھر کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ تلبیہ کس طرح تھا؟ ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ لوگوں میں حج کا اعلان کریں، ان کے لیے بستیاں بلند کر دی گئیں اور پہاڑ اپنی چوٹیوں سمیت پست کر دیئے گئے تو انہوں نے لوگوں میں حج کا اعلان کیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابوداود، كتاب المناسك، باب الرمل، رقم: 1885. قال الشيخ الالباني: صحيح مسند احمد: 297/1. 311»